موبائل فون ، انٹرنیٹ اور ہماری ذمہ داریاں

ایشیا ء سے لےکر امریکہ اور انٹارٹیکا سے لے کر اسٹریلیا تک پھیلی ہوئی دنیا ء کو سمیٹ کر گلوبل اسٹریٹ بنانے کا سہرا ذرائع ابلاغ ہی کے سر ہے۔ جہاں ضلع کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک خبر پہنچنے میں زمانے لگتے تھے اور ہمارے ہاں تو  ’’میر کھنی خبر‘‘ زبان زد عام تھا ،وہاں ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم کا فاصلہ گھٹ کر گاؤں سے بھی کم رہ گیا ۔ ایک علاقے کی خبر نہ صر ف پلک جھپکتے ہی دوسرے علاقے تک پہنچتی ہے بلکہ وہاں کے معاشی ، معاشرتی اور سیاسی حالات پر اثر انداز بھی ہوتی ہے ۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ نے تو کمال ہی کر دیا ہے ۔ جن کی بدولت انسانی زندگی سہل ہوگئی ہے۔ ایک طرف گھر بیٹھے بٹھائے آپ کو ساری دنیا کا علم ملتا ہے تو دوسری طرف تفریح کا بھی نہایت سستا ذریعہ میسر آگیا  ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ من حیث القوم ہم پاکستانی اورخصوصاً چترالی ان کو صرف تفریح ہی کا ذریعہ بنا چکے ہیں۔

کسی بھی چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں مثبت اور منفی ۔ با لفاظ دیگر ہر انسانی ایجاد کی افادیت کے ساتھ نقصان بھی جڑی ہوئی ہے۔ جس طرح کانٹوں کے بغیر پھول کا تصور محال ہے ٹھیک اسی طرح موبائل فون اور انٹر نیٹ جہاں فاصلے گھٹا کر  انسانی تہذیب کو نئے دور میں داخل کر چکے ہیں۔ وہیں ان کے نقصانات سے چشم پوشی بھی دانائی نہیں ۔ یہا ں   یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ ہر دو وہ ایجادات ہیں جو استعمال کرنے والے کی محتاج ہیں۔ یعنی یہ بذات خود آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جب تک ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔اس میں دو رائے نہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی کا غلط استعمال معاشرے کی بگاڑ کے بنیادی اسباب ہیں۔ انٹرنیٹ پر موجود پراگندہ لٹریچر اخلاقی بے راہ روی اور مذہب سے دوری پیدا کرتی ہے۔ تو موبائل فون کے بے تحاشہ استعمال امن و سکون  کوغارت کر چکا ہے۔ ذہنی پسماندگی اور علم و فکر سے دوری نے حالیہ دنوں میں ایسے ٹیکسٹ  پیغامات کو فروع دیا ہے جو دوسروں کی تذلیل کا سبب بنتے ہیں۔ہم پیغامات بھیجنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے ہیں کہ اس کا معاشرے پر کیا اثر ہوگا؟ کیا بحیثیت انسان یہ مجھے زیب دیتا ہے ؟ کیا مذہب اسلام میں اس طرح کی باتوں کی گنجائش ہے؟
والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بیٹے یا بیٹی کو موبائل خرید کر دیتے وقت ایک منٹ کے لیےسوچیں کہ کیا میری اولاد اسے مثبت استعمال کرے گی؟ بد قسمتی سے یہ سوچ ہمارے معاشرے میں اب تک پر واں نہیں چڑھی ہے ۔ نتیجتاً ہم ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جو ایک طرف اخلاقی پستی کا سبب اور دوسری طرف وقت کا ضیاع ہے۔
اس بات سے انکار محال ہے کہ موبائل فون یا انٹر نیٹ موجودہ دور کی سب سے بڑی ضرورتیں ہیں لیکن فکرو خیال کو سلیقہ ملے بغیر ان کا مثبت استعمال ممکن نہیں ۔ پانچویں جماعت کے طالب علم کو موبائل تھما کر مثبت استعمال کی توقع رکھنا عبث ہے۔
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم اپنوں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور ان کی منفی سرگرمیوں پر پردہ ڈال کر غیروں پر انگلیاں اٹھاناہمارا وطیرہ بن گیا  ہے۔ ہر بات پر یہود و نصاریٰ کو طعنہ دینے سے نہیں تھکتے۔ بحیثیت ماں باپ اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑتے ہیں ۔ بحیثیت اولاد ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ، بحیثیت طالب علم ہمیں کیا کرنا چاہیے اور بحیثیت جز معاشرہ ہمارا کردار کیا ہونا چاہئے؟ ہم کبھی نہیں سوچتے ۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم رو بہ زوال ہیں۔ معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ ہم بھی غیروں کی طرح ترقی یافتہ تو ہونگے لیکن تہذیب یافتہ نہیں۔ ہم اپنی ذمہ دا ریوں سے کس حد تک عہدہ برا ہ ہیں یہ وہ سوال ہے جسے ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے۔ اور تواتر سے پوچھنا چاہیے۔

Print Friendly, PDF & Email

2 تبصرے

  1. . Biggest irony is that internet was made to save time. Anyhow good piece of writeup

  2. لالہ زار

    Excellent as always… the crux is… when a flower doesn’t bloom, you fix the environment in which it grows Not the Flower
    Unknown

لالہ زار کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے