ثقافت یا بگاڑ

کوئی بھی معاشرہ چاہے بڑے سے بڑا ہو یا چھوٹے سے چھوٹا، سینکڑوں سال قدیم ہو یا کہ دورِ حاضر کا نمائندہ اور جدید۔پسماندگی سے دوچار ہو یا ترقی کے آسمان کی طرف گامزن، اُس کی اکائی فردِ واحد ہی ہوتی ہے اور اس کے احساسات و خیالات اور فکر و افکار معاشرے پہ بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ عمومی رویے ہی ہوتے ہیں کہ جو آگے بڑھ کے اجتماعیت کا رُوپ دھارتے ہیں اور ثقافتی اقدار کے رُوپ میں تبدیل ہوتے ہیں جن سے ثقافت وجود میں آتی ہے ۔اس لیے جب ہم کسی بھی معاشرے کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معاشرہ مثبت سوچ کے حامل افراد اور اقدار کا مجمو عہ ہے اور کسی بھی معاشرے کے بارے میں منفی سوچ اور مشاہدات کا مطلب وہ منفی اور غیر مثبت رویّوں اور اقدار کی کثرت ہے کہ جو اُس معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔باقی رہی بات فردِ واحد کی تو اس سے مرا د وہ خواتین بھی ہیں کہ جو کسی بھی معاشرے کا جزو لاینفک ہیں اور کسی بھی معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ میں ان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔جس طرح کسی بھی معاشرے میں صنفی طور پہ مرد اور عورت کی تفریق کی گئی ہے اسی طرح کسی بھی معاشرے کے کچھ ثقافتی اقدار بھی مرد اور عورت کے درمیان واضح طور پہ منقسم ہیں اور تاریخ کے کسی بھی دور میں اُن سے رُوگردانی کسی بھی معاشرے کے لیے سمِّ قاتل ثابت ہُوئی ہے۔ مرد اور عورت کی ابتدائی اور ازلی پہچان تو خود خالقِ کائنات نے رکھی ہے اور اُس کی حتمی پہچان پہ مُہرِ ثبت معاشرتی اقدار لگا دیتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرتی اور ثقافتی اقدار ہی ہوتے ہیں کہ جو مرد اور عورت کو اُس کی حقیقی پہچان سے روشناس کراتے ہیں ۔ اسی لیے ہمارے ذہن میں جب مشرقی عورت کا تصور آتا ہے تو ہر رشتے کی رو سے عورت کی ایک نمایاں تصویر سامنے آجاتی ہے جو اس تصویر سے بالکل ہی الگ اور ممتاز و برتر ہوتی ہے جو تصویر ایک مغربی یا مغرب زدہ عورت کا تصور کرتے ہوئے ہمارے ذہنوں میں آتی ہے۔عورت چاہے دنیا کے کسی بھی ملک ،قوم ،قبیلے اور معاشرے سے تعلق رکھتی ہو وہ قابلِ صد احترام و افتخار ہے کیونکہ عورت کے بغیر کوئی بھی معاشرہ مکمل نہیں ہوتا ۔اب یہ معاشرتی رویے اور ثقافتی اقدار ہوتے ہیں کہ جو کسی بھی معاشرے میں افراد بشمول مرد و عورت کی عزت، عظمت اور تکریم میں کمی یا بیشی کرتے ہیں۔مرد اور عورت معاشرے کے دو پہیے ہوتے ہیں کہ جن کے بےغیر معاشرے کی گاڑی دو قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی ۔کسی بھی معاشرے کی ترقی اور بقاء کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے یہ دونوں جزو اپنی اپنی مدار پہ گردش کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تاکہ ایک ایسا مثبت اور سچے اقدار پہ مبنی معاشرے کی تکمیل ہوسکے کہ جس میں ہر انسان مرد و عورت کی تقدیس اور عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے سب کو ترقی اور خوشحالی کے یکساں اور برابر مواقع فراہم کئے جائیں۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ترقی اور آگے بڑھنے کے اس دوڑ میں معاشرے کے افراد معاشرتی بگاڑ سے متصادم نہ ہو پائیں کیونکہ جہاں پہ ثقافتی اقدار معاشرتی بگاڑ کا سبب بنیں اُس معاشرے کی حیثیت برکھا رُت میں ہواؤں کی چوکھٹ پہ رکھے ہوئے اس چراغ کی مانند ہوتی ہے کہ جو کسی بھی وقت ہوا کے کسی بھی تھپیڑے کے آگے سرنگوں ہو کر اپنی روشنی اور اپنا وجود ہمیشہ ہمیشہ کے کھو دیتا ہے۔
ہمارا چترالی معاشرہ اور اس کے اندر صدیوں سے پنپنے والی چترالی ثقافت اس لحاظ سے نمایاں و ممتاز ہے کہ اس میں ہماری علاقائیت کے ساتھ ساتھ مشرقیت اور ہمارے آفاقی مذہب اسلام کی بھی گہری چھاپ نظر آتی ہے ۔اگرچہ اپنی دور افتادگی کے باعث ہم مادی ترقی کے اس دور میں دوسرے اقوام سے کافی پیچھے رہ گئےہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرتی رویوں اور ثقافتی اقدارنے کہ جو اتحاد ، سادہ و میانہ روی ، صلہ رحمی اور احترامِ انسانیت کے زرین موتیوں سے مرصع و مزیّن ہیں ہماری ثقافت کو اقوامِ عالم کے سامنے بلاشبہ ایک مثال بنا کے پیش کیا ہے ۔اقوامِ عالم میں جب کبھی بھی پہاڑوں کے دامن میں زندگی کے شب و روز گذارنے والوں کا ذکر ہوا ہے توایک پسماندہ مگر انتہائی باعزت ، متمدّن اور عزتِ نفس سے مالا مال قوم کے طور پہ ہوا ہے ۔ زیادہ دور کیوں جائیں صرف ایک عشرے پہلے کی ہی بات ہے کہ جب لفظ چترالی ہمارے لبوں سے نکلتا تھا تو مخاطب کے لب و لہجے میں ہمارے لیے ستائش اور پسندیدگی صاف طور پہ دیکھی جاسکتی تھی ۔لیکن پھر اچانک نہ جانے کیسی ہوا چلی اور وَبا پھیل گئی کہ ہمارا معاشرہ ہمیں ہی زہر لگنے لگا اور ہماری ثقافت خود ہمیں ہی کھٹکنے لگی اور ہم اپنے اس اعلٰی و ارفع ثقافتی اقدار کے حامل معاشرے کی بانہوں میں گُھٹن محسوس کرنے لگے ۔ ہماری قابلِ فخر اور زرین ثقافت خو د ہمیں ہی بوجھ لگنے لگی اور مادی ترقی کے ساتھ ساتھ ثقافتی تنزل اور بگاڑ کے جراثیم بھی ہمارے اندر نہایت تیزی سے سرایت کرنے لگے اور ستم کی بات یہ تھی کہ بجائے حدِ آخر تک اپنا دامن بچانے کے ہم اپنے دروازوں سے دس قدم آگے بڑھ کے اس بگاڑ کو خود ہی اپنے گلے سے لگانے لگے اور آج حالت یہ ہے کہ ہم اپنی تہذیب اور ثقافت کا جنازہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے اُٹھائے پھر رہے ہیں ۔ مغرب زدہ تہذیب کے اندھا دھند نقالی میں آج ہماری حالت دھوبی کے اُس کتے کی سی ہوگئی ہے کہ جو نہ گھر کا رہ جاتا ہے اور نہ گھاٹ کا۔ اس سلگتے موضوع پہ لب کشائی کی نوبت اس لیے آئی کہ گذشتہ دنوں چند اعلٰی تعلیم یافتہ اور دورِ جدید کے نمائندہ دوستوں کی محفل میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا تو موسیقی کی محافل میں ہماری خواتین کی شرکت پہ کچھ بات چیت آگے چلی تو بہ قول اُن کے کہ معاشرے میں جو کام مرد کر سکتا ہے ایک عورت کیوں نہیں کرسکتی اگر مرد چترالی ثقافت کے نام پہ منعقد محفلِ موسیقی میں جاسکتی ہے تو عورت کا بھی پُورا حق ہے کیونکہ وہ بھی جذبات رکھتی ہے ۔میں اس دوست کی بات سُن کے اپنی جگہ پہ ہی سُن ہوکے رہ گیا اور کئی دن تک یہی سوچتا رہا کہ اگر ہمارے معاشرے کی بھاگ دوڑ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آجائے تو وہ وقت دور نہیں کہ جب ہمیں اجتماعی اور معاشرتی خودکشی کرنی پڑے ۔میرے اُس نادان دوست کو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ کچھ ثقافتی اقدار مردوزن کے لیے الگ الگ مقرر کئے گئے ہیں ۔جیسا کہ پولو اور فٹبال کا کھیل چترال کے طول و عرض میں کھیلا جاتا ہے اور اتنے مقبول ہیں کہ ہماری ثقافت کا حصہ بن گئے ہیں اسی طرح چترال کی قدیم ترین ثقافت شکار پہ جانا (بایو غیر بیک) ہے یہ خالص مردانہ ثقافتی اقدار ہیں اور ہم مردوزن کی مساوات کا ڈھونگ رچا کر کبھی بھی اپنی خواتین کو ان اقدار میں شامل نہیں کر سکتے (کم از کم مستقبل قریب میں نہیں)۔ اسی طرح سلائی کڑھائی کا کام ہماری ثقافت کا ایک نمایاں پہلو ہے اب مجھے نہیں لگتا کہ ثقافتی مساوات کا پرچار کرنے والے میرے اُن دوستوں نے کبھی اپنے ہاتھوں سے دستانے بُنے ہوں ، اپنے گھر والوں کے لیے سویٹر تیار کیے ہوں یا کبھی قالین کے کھدر پہ بیٹھ کے قالین بافی کی ہو۔اسی طرح امورِ خانہ اور دیگر گھر گرہستی کے کام جو الگ الگ مردوزن کو ہماری ثقافت نے تفویض کیے ہیں ۔اب میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ جا کے ہم امورِخانہ داری سنبھالیں ، سلائی کڑھائی کرلیں یا مال مویشی یا مرغیوں کی دیکھ بھال کریں اور نہ ہی میں یقیناًیہ چاہوں گا کہ ہماری مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں کئی کئی دن کے شکار پہ نکل جائیں ، چترال پولو گراؤنڈ میں پولو کا ٹورنامنٹ کھیلیں یا اُن کے گاؤں اور ضلع کے لیول پہ فٹبال اور کرکٹ کی ٹیمیں ہوں کہ جن کے درمیان سارا سال پیریڈ گراؤنڈ اور دیگر عوامی مقامات پہ کھیلوں کے مقابلے ہوں اور یقیناًمیری مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں خواہ جن کا تعلق چترال کے کسی بھی علاقے سے ہو یہ چاہیں گی ۔میں بس صرف اپنے معاشرے کے نمائندہ لوگوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدارا جس حد تک بگاڑ آگیا ہے ہماری غیرت کا عنقریب جنازہ نکالنے کے لیے کافی ہے ۔ اب روشن خیالی اور جدت پسندی کے نام پہ میں اور سرنگوں اور شرمسار نہ کریں ۔ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو اس مقام پہ ہی رہنے دیں کہ جہاں اُن کا حق ہے اور جو اُن کے لئے بنا ہے ۔میں اُن کی ترقی کے ہرگز خلاف نہیں ہوں ، اعلیٰ سے اعلیٰ دنیاوی اور دینی علم سے انہیں مالامال کریں ۔ اُنہیں ہر وہ حقوق دیں جو اسلام نے دئیے ہیں اور یقیناًاسلام سے بہتر حقوق کسی بھی مذہب نے عورت کو نہیں دئیے ہیں ۔ انہیں اس معاشرے کا کارآمد شہری بنائیں جو کہ اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں لیکن ثقافت کے نام پہ اُن سے اُن کا مان نہ چھینیں ۔ ہماری بہن گھر کی زینت کو چار چار لگانے کے لیے ہے اسے رونقِ محفل نہ بنائیں ۔ آپ یقیناًاس بات کا محفلِ موسیقی میں بھی خیا ل رکھتے ہوں گے ۔ ان کی نشست بھی علیحدہ ہوتی ہوگی لیکن میرے بھائی برائی کے راستے پہ صرف ایک ہی قدم رکھنے کی دیر ہوتی ہے باقی پتہ ہی نہیں چلتا اور تباہی کی منزل کب کے آکے گذر بھی چُکی ہوتی ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے