سیاسی یتیم

وطنِ عزیز کو پنجہ ٔاغیار سے شرفِ آزادی حاصل کیے تقریباً سات دہائیوں پہ محیط ایک عرصۂ دراز پورا ہونے کو ہے ۔آج سے تقریباً ستر سال پہلے مسلمانانِ برصغیر کی نوّے سال پہ محیط جدو جہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے نتیجے میں جب دنیا کے نقشے میں مدینہ منوّرہ کے بعد تاریخِ اسلام کی دوسری اسلامی نظریاتی ریاست اسلامی جمہورئیہ پاکستان کے نام سے وجود پذیر ہوئی تو گویا سارے مسلمانانِ عالم کی نگاہیں اس نوزائیدہ اور اُس وقت کی ناتواں مملکت پہ پڑیں کہ جس کی بقا میں اہلِ اسلام کو اپنی بقا اور جس کے تنزل اور زوال میں اہلِ اسلام کو اپنا تنزل اور زوال نظر آنے لگا تھا۔اگرچہ بابائے قوم نے شروع دن سے ہی پاکستان کے سیاسی مستقبل کے لحاظ سے اپنے تحفّظات کا اظہار کیا تھا اور اپنے اردگرد منڈلاتے ہوئے سیاسی طفیلیوں کو کھوٹے سکے کی صورت میں پَرَ کھ چکے تھے لیکن اس کے باوجود بھی اگر آج ہم آزادی کے اتنے سالوں کے بعد وطنِ عزیز کے چاروں صوبوں کے بیشتر شہروں اور دیگر رہائشی علاقوں کی طرف دیکھتے ہیں تو اس بات کا ادراک ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی کہ ہمارے ملکی سیاستدانوں کی تمام تر نااہلیوں، ساری کرپشنز اور ایک جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہمیشہ کی اقرباء پروری کے باوجودہر شہر ،گاؤں اور ضلعے کی سطح پر ہر دور میں ترقیاتی کام ہوتے رہے ہیں اور تمام تر سیاسی خرابیوں کے ساتھ آج بھی کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی صورت میں ہورہے ہیں۔باالفاظِ دیگر اگر ہمارے سیاستدانوں نے قومی خزانے کو آبائی و ذاتی میراث جان کے بے دردی سے کھایا اور لُٹایا ہے تو کم ازکم اس کی زکوٰۃ ہی اپنے حلقے اور علاقے کے عوام کو دی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج وطنِ عزیز کا واضح اکثریتی حصہ سڑکوں کی جال کے ذریعے آپس میں ملا ہوا ہے۔ذرائع آمدورفت میں متاثر کن ترقی دیکھنے میں آرہی ہے ۔سڑکوں کا معیار ملک کے چاروں صوبوں کے اکثر علاقوں میں بہت بہتر ہوتا جارہا ہے اور اس میں مزید بہتری بھی آرہی ہے ۔نئی سڑکیں بن رہی ہیں اور پرانی سڑکوں کو چوڑا کیا جا رہا ہے اور اس طرح دنوں کے فاصلے گھٹ کے گھنٹوں تک سمٹ گئے ہیں۔لوڈشیڈنگ کے آسیب کے باوجود عام صارف اپنی روز مرّہ کی زندگی میں بجلی اور آلاتِ بجلی سے مستفید ہو رہا ہے۔ذرائع ابلاغ تک رسائی اور روز مرہ سے آگاہی اب پہلے کی بہ نسبت کہیں زیادہ آسان ہوگئی ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ آسان تر ہوتی چلی جارہی ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم مناظرِ قدرت سے مزیّن،زیورِتعلیم سے آراستہ ، قدرتی وسائل سے مالامال لیکن سیاسی رہنمائی سے محروم ایک ایسے علاقے میں رہ رہے ہیں کہ جسے ضلع چترال کے نام یاد کیا جاتا ہے اور جس پہ معاشرتی و معاشی اور مواصلاتی ترقی کے تما م دروازے قیامِ پاکستان سے لے کے آج تک ہمیشہ بند رکھے گئے ۔ہمارے ساتھ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے مسائل آج بھی وہی ہیں جو کہ آج سے کئی عشرے پہلے تھے ۔ہماری راہِ سفر میں آج بھی وہی کانٹے اُگتے ہیں کہ جن سے اُلجھ کے برسوں پہلے ہمارے بزرگوں کے دامن تارتار ہوتے تھے۔آج کے اس انتہائی ترقی یافتہ دور میں بھی کہ جب انسان کے لیےزمین کی وسعتیں چھوٹی لگنے لگی ہیں ہم ایک چوتھائی سال کے لیے پوری دنیا سے اور خصوصاً اپنے ہی ملک سے بھی کٹ کے رہ جاتے ہیں۔آج بھی ہماری واضح اور غالب اکثریت کے پاس بجلی نہیں ہے کہ جس کی روشنی میں ہمارے بچے راتوں کو بیٹھ کر پڑھ سکیں اور ہماری خواتین اپنے امورِ خانہ بہ آسانی انجام دے سکیں۔آ ج بھی ہمارے پاس ایسی سڑکیں نہیں ہیں کہ جن پہ چل کے ہمارے مریض سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے سے پہلے کسی مسیحا تک پہنچ پائے اور جن پہ چل کے ہم بوقت اور بلا دقت کے اپنی منزل پہ بخیر و خوبی پہنچ سکیں۔تیسری بہترین شرحِ خواندگی رکھنے کے باوجود بھی ہماری نوجوان نسل بیروزگاری سے تنگ آکر نشے کی بانہوں میں سکون ڈھونڈرہی ہے کہ جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ اپنی بگاڑ کی جانب تیزی سے روبہ سفر ہے۔ان سارے مسائل اور ان تمام آلام و مصائب کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے کہ بہ حیثیتِ قوم آزادی کے سات عشروں کے بعد بھی ہم چترال کے باشندے سیاسی طور پہ مکمل یتیم ہیں۔یہ شاید ہمارے کسی اجتماعی گناہ کی سزا ہے کہ 7 دہائیوں پہ مشتمل اس لمبے عرصے کے دوران کہ جس میں ہماری تیسری نسل بھی پروان چڑھ رہی ہے کوئی بھی ایسی مخلص قیادت اس بدنصیب ضلعے اور اس کے بد نصیب باسیوں کو نصیب نہ ہو سکی کہ جو اپنے اور اپنے اقرباء اور اپنے سیاسی رشتہ داروں کی ہَوَس اور حرص کی آگ کو بجھانے کے ساتھ ساتھ اس دور افتادہ وادی کے غریب عوام کی بھی داد رسی اور اشک شوئی کے لیے وقت نکال لیتا۔ جب بھی قیادت بدلی حالات بھی بدل گئے مگر بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتے گئے ۔ الیکشن کے دن گذرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماؤں اور عوام کے درمیان فاصلے بھی بڑھتے گئے ۔ قیادت امیر سے امیر تر ہوتی گئی اور عوام بد سے بدحال تر۔ یہان تک کہ آج اکیسویں صدی کے اس سترہویں سال بھی جب ہم 8 گھنٹوں کا سفر 38 گھنٹوں میں طے کرتے ہیں، کئی کئی سالوں سے بلب کی روشنی کو ترستے ہیں، بروقت اپنے کسی جگر گوشے کو ہسپتال پہنچانا جب ہمارے بس سے باہر ہوتا ہے تو اس یتیمی کا احساس اور بھی شدت سے ہونے لگتا ہے لیکن اب اگر شکوہ کریں بھی تو کس سے؟؟یہ ہمارے ناخدا ہی تھے جو لُٹیرے بن گئے ۔ہمارے راہ بروں نے ہی راہ زنوں کا رُوپ دھار لیااور آج ہماری حسین وادی ایک ایسی بھیانک اور خوفناک قتل گاہ بن گئی ہے کہ جس میں روزانہ پتہ نہیں کتنی آرزؤں کا خون بہایا جاتا ہے اور نہیں معلوم کتنی تمنائیں خاک میں ملا دی جاتی ہیں ۔کتنی ماؤں کے معصوم پھول مناسب علاج نہ ملنے سے اُن کے ہاتھوں میں تڑپ تڑپ کے موت کے گُم نام اندھیروں میں گُم ہوگئے ہیں ۔لواری ٹاپ اور اب لواری ٹنل کا عفریت نہ جانے کتنے گھروں کے دئیے اُجاڑ چکا ہے اور نہ جانے اور کتنے قربانی کی اس قبیح اور بھیانک رسم کی نذر ہونگے۔وجہ یہی ہے صرف اور صرف یہی ۔۔۔۔کہ من حیث القوم ہم سارے سیاسی یتیم ہیں کیونکہ ہمارے سروں پہ کبھی سیاسی قیادت کا ہاتھ تھا اور شائد ہی نہ کبھی ہوگاجو بھی سیاستدان اس یتیم نگر میں آیا اپنے لیے آیا،اپنے لیے جِیا اور پھر چلا گیا۔ نتیجہ کیا ہوا کہ قوم تو وہیں کی وہیں رہ گئی اور اس قوم کے سیاستدان بہت آگے نکل گئے ۔اتنا آگے کہ اب اگر پیچھے مڑ کر بھی دیکھیں تو اُن کو یہ قوم نظر نہیں آتی ۔بس یوں سمجھیں کہ وادئ چترال میں صرف اور صرف یتیموں کا بسیرا ہے ۔ فقط یتیم ہی یہاں رہتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔سیاسی یتیم۔۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے