مجھ سے ملنا تھا نا ؟ تو مل لیا!!

زندگی میں انسان کے کچھ ایسے مشغلے ہوتے ہیں اور کچھ چیزوں کا ایسا شوق یا چسکا لگ جاتا ہے کہ وہ پھر کبھی چھٹنے کا نام نہیں لیتیں۔اِنہی میں سے ایک کرکٹ نام کی بَلا بھی ہے کہ جس کے بغیر نہ پہلے گُذارا ہوتا تھا او رنہ اب ہوتا ہے۔آدھی سے زیادہ زندگی گُذر گئی لیکن یہ ہے کہ اپنی اہمیت کم ہونے ہی نہیں دے رہی۔جب خود بچے تھے اُس وقت بھی اوڑھنا بچھونا کرکٹ تھا اور آج جب اپنے بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں تو بھی ” چھٹتی نہیں ہے منہ س
ے یہ کافر لگی ہوئی” کے مصداق کرکٹ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور خدشہ ہے کہ ” گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے ” والا معاملہ ہی نہ ہو جائے۔

اس بار بھی پی۔ایس۔ایل (پاکستان سُپر لیگ) کا ہر پاکستانی کی طرح مُجھے بھی شدت سے انتظار تھا اور اس کے انتظار میں دن گن گن کے گُذار رہا تھاکیونکہ حالیہ و سابقہ دہشت گردی نے جہاں ہمیں لاشوں ، اشکوں اور آہوں کی صورت میں بہت کچھ دیا ہے وہاں ہم سے ہمارے خوش رہنے کے چھوٹے سے چھوٹے مواقع بھی چھِن گئے ہیں اور اُن میں سے ایک کرکٹ بھی ہے۔خیر مقررہ تاریخ کو وقتِ مقررہ پہ ساری مصروفیات کو پسِ پُشت ڈال کر ٹی۔وی کے عین سامنے نشست سنھبال لی اور ٹی۔وی آن کی ، لیکن یہ کیا ؟؟؟؟؟ٹی وی تو آن ہی نہیں ہورہا تھا۔ بجلی کے کنکشن سارے چیک کئے اور اپنی سمجھ کے مطابق ری سیٹ بھی کئے ۔ سوئچ دوبارہ لگایا ، دوسرے پلگ پہ لگایا ، پھر تیسرے پہ ۔ لیکن مجال ہے کہ ٹی۔وی کوذرا سا بھی ہمارے دلی جذبے اور کرکٹ کی منتظر ترستی آنکھوں پہ رحم آجائے بلکہ اس روز تو اُس نے نہ چلنے کی جیسے قسم ہی کھارکھی تھی شاید کئی دِن سے اُسے ہاتھ تک نہ لگانے کا بدلہ لےرہا ہو۔چاروناچار موبائل پہ ہی cricinfo لگایا اور live scores دیکھنے لگا ۔لیکن اس سے کہا ں صبر آنا تھا کیونکہ ہر وکٹ اور باؤنڈری پہ آتشِ شوق بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کے refreshment room میں جانے کا فیصلہ کیا ہی تھا کہ اسی دوران مجھے کچھ smell سی محسوس ہُوئی جیسے کہ کوئی تار جلنے کی بو ہو۔ میں اُٹھنے کے لیےپَر تول ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے یُوں لگا کہ جیسے میرا ہاتھ کسی گرم توے پہ آگیا ہو اور میں جو سستی اور کاہلی کا پیکر بنا لیٹا ہوا تھا اچانک ہی نوے ڈگری کے زاویے پہ پلک جھپکتے ہی سیدھا ہو گیااور جب کُچھ سیکنڈ کے بعد میرے اوسان بحال ہُوئے تو اصل صورتحال میرے سامنے واضح ہوگئی کہ میرےہاتھ انگارے کی طرح گرم ہوتے ہُوئے استری سے جاٹکرائے جب مزید آنکھیں کھلیں تو یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوئی کہ میں نے ٹی۔وی کی جگہ استری کی تار سوئچ بورڈ پہ لگائی تھی یعنی کہ کنکشن استری کا چل رہا تھا اور خواب پی۔ایس۔ایل کے آرہے تھے۔
کچھ اسی طرح کے حادثات و واقعات سال کے بارہ مہینے ہم چترالیوں کے ساتھ تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں۔ ہرسال زیادہ گرمی کی وجہ سے بپھرتے ندی نالے ہوں یا اپنی حدوں کو توڑ کے آبادی کو کاٹنے والی دریائی لہریں ، زلزلوں کے باعث ہلتی ہوئی زمین ہو یا پھر لینڈ سلائیڈنگ کی شکل میں سرکتے ہُوئے برفانی تودے۔جب بھی اس طرح کی کوئی آفت چترال اور اہلیانِ چترال کے قدموں کو ڈگمگاتی ہے ہمارے وہ ناخدا و چارہ ساز و چارہ گر کہ جنہیں ہر پانچ سالوں کے بعد اپنا جمہوری دودھ پلا کر پالتے اور پوستے ہیں اُن نافرمان بیٹوں کا رُوپ دھارتے ہیں کہ جو اپنے بچپن میں تو ماں باپ کی اُنگلی پکڑنے کے محتاج ہوتے ہیں لیکن جب اُن پر جوانی آتی ہے تو انہی والدین کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے ۔بے شک آفات قدرتی ہوتے ہیں، ان کو روکنا اور ان کا مکمل سدِباب کرنا انسانی دسترس سے باہر ہے ۔لیکن بروقت اور بہتر منصوبہ بندی کرتے ہوئے ان نقصانات کے اثرات کو کم کرنا یا پھر کم سے کم نقصانات کے بعد متاثرین کی اشک شوئی کرنا اور مالی و اخلاقی دونوں لحاظ سے اُن کی مدد کرنا یہ تو فرائضِ انسانی کے زمرے میں آتا ہے اور اس سلسلے میں سیاسی رہنماؤں کا کردار بنیادی اورکلیدی ہوتا ہے کیونکہ وہ سیاسی اور حکومتی نظام سے براہ راست جُڑے ہوتے ہیں اور سرکاری وسائل تک کسی نہ کسی صورت اُن کی پہنچ بھی ہوتی ہے ۔لیکن شاید ہمارے سیاسی اکابرین و عمائدین ایسے کاموں کے لیے منتخب ہی نہیں ہوئے ہیں۔اسی لیے ایسے مواقع پہ تو اکثر وہ کئی کئی دن تک ہمیں نظر ہی نہیں آتے اور جب سامنے آتے بھی ہیں تو لواحقین و متاثرین کے ساتھ صرف فوٹو سیشن کروانے کے لیے ۔ تاکہ اُنگلی بھی نہ کٹے اور شہادت کا عظیم رتبہ بھی حاصل ہو۔کتنے بڑے بڑے اور اندوہناک واقعات و حادثات ہوئے او ر آئے روز ہو بھی رہے ہیں ۔ لیکن مجا ل ہے کہ کوئی سیاسی لیڈر یا حکومتی عہدیدار اپنی سیاسی بِل سے صحیح معنوں میں باہر آکر عوام کے ساتھ کھڑا ہُوا ہو اور اُن کے نقصانات کے ازالے کے لیے کسی فورم پہ اُنہوں نے مل کر آواز اُٹھائی ہو۔یہاں تو یہ حالت ہے کہ وفاق کی طرف سے وقتاً فوقتاً ہونے والے اعلانات اور خوشخبریاں بھی قصہ ء پارینہ بن جاتی ہیں اور اُن کے منصوبے کاغذوں کے اندر ہی رہ رہ کے ایکسپائیر ہو جاتے ہیں ۔کوئی اعلیٰ وفاقی یا ملکی سیاسی شخصیت اپنے دورِ اقتدار میں ایک یا دو بار ہی کسی علاقے کا دورہ کرتی ہے اور اس دوران ترقی اور کامیابی کے منصوبوں کا اعلان کرتی ہے لیکن ان اعلانات کے بعد اُن منصوبوں کے پیچھے متحرک ہونا، حکومتِ وقت کو باربار یاد دہانی کرانا اور اُن سے فنڈز لے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا تو مقامی سیاست کے علمبرداروں کا کام ہوتا ہے ۔وفاق کے پاس بیشک وسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن اُدھر بھی کوئی خلیفہ ء دومؓ کے سچے جانشین نہیں بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی اسی سیاسی نظام کی پیداوار ہیں کہ جن کی حتی الوسع کوشش یہی ہوتی ہے کہ اعلانات کی تو بھرمار ہو لیکن اُن پہ عملدر آمد کم سے کم تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اب ان اعلانات کے مطابق منصوبہ شروع کروانا اور پھر اُن کی تکمیل کو یقینی بنانا اس میں مقامی سیاست اور سیاست دانوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے ۔یہ مقامی ایم۔این۔اے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ وفاق کو اُس کے وعدے اور اس کی ذمہ داریاں یا د دلائے ۔یہ کام علاقے یا ضلع کے ایم ۔پی۔ایز کا ہوتا ہے کہ وہ اپنی صوبائی حکومتوں کے ذریعے وفاق پر دباؤ ڈال کے اُس کے اعلانات کے مطابق اپنے علاقے کی ترقیاتی منصوبے یا متاثرین کی بحالی کے عمل کو پایہ ء تکمیل تک پہنچائیں ۔لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ یہ صرف اُن معاشروں میں ہوتا ہے کہ جہاں سیاست کے معنی خدمت اور عبادت ہے۔ نہ کہ ہمارا معاشرہ جہاں سیاست کے ہزارو ں معانی تو ہوتے ہیں لیکن اُن ہزاروں معانیوں کے بیچ آپ کو یہ دو لفظ نظر نہیں آئیں گے ۔ بات سے بات نکلی تو پچھلے دنوں کا ایک واقعہ بھی یاد آگیا جب ہمارے چند اربابِ فہم و دانش نے گردوں کے عارضے میں مبتلاایک ننھے مگر انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے بچے کے علاج کے لیے زور و شور سے چندہ مہم چلائی گئی اور یہ مہم اب بھی چل رہی ہے جس ں اندروں چترال اور چترال سے باہر خصوصاً ملک سے باہر روزگار کے سلسلے میں رہائش پذیر احباب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ لیا اور اب بھی لے رہے ہیں۔لیکن مجال ہے کہ ہمارے سیاست کے کرتا دھرتاؤں نے اس کارِ خیر میں کسی بھی طرح سے حصہ لیا ہولیکن پھر بھی تقریباً ہر پارٹی سے تعلق رکھنے والے انسان اور انسانیت کا درد رکھنے والے ہر عمر کے لوگوں نے اپنی حد تک اس میں بھر پور شرکت کی ۔لوگوں سے رابطہ کیا ۔ سوشل میڈیا پہ مہم چلائی ۔ چندے کی چادر بچھا کے بیٹھ گئے اور اس بات کا عملی مظاہر ہ کیا کہ بات جب انسانی زندگی کی ہوتی ہے تو پھر سیاسی وابستگی کو ہم بہت پیچھے چھوڑ آتے ہیں۔یہ مخلص انسان بطورِ سیاسی کارکن کے اپنی اپنی پارٹیوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن تا دمِ تحریر  وفاقی ، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے کرتا دھرتا اور عہدیداران  مل کے ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے ہیں اور ان کی نیند کی پختگی کو دیکھتے ہوئے دمِ عیسیٰؑ یا صورِ اسرافیلؑ سے پہلے اُن کے جاگنے کا کوئی امکان نظر بھی نہیں آتا ۔اگرکوئی کرشمہ ہو جائے اور وہ جاگ  جائیں تو یہ ہماری قسمت۔ لیکن بدقسمتی  سے اب ہم کرشموں والی قوم بھی نہیں رہی ہیں تبھی تو کئی دن کی ناکام کوششوں کے بعد جب اچانک ہمارے ایک سیاست دان صاحب سے کچھ دردِ دل رکھنے والے افراد کی ملاقا ت ہوئی اور اُن کو بتا یا گیا کہ اس معصوم ، ناچار اور بیمار بچے کے معاملے میں آپ سے ملنا چاہ رہے تھے تو اُن کی مسکراہٹ سے بھر پور  الفاظ کچھ یُوں تھے ” مجھ سے ملنا تھا نا !!! تو مل لیا آپ نے” اور یہ مبارک اور حوصلہ افزائی کے کلمات ارشاد فرما کر وہاں سے ہنستے ہوئے تشریف لے گئے ۔
یہ سارے حادثات و واقعات بیان کرنے کا مطلب اور مقصد کسی کی دل آزاری یا کسی پہ سیاسی حملہ ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ ہماری فرسودہ سیاست اور سیاستدانوں کی طرف سے ہمیں دئیے گئے وہ زخم ہیں کہ جن سے نہ جانے کب تک ہماری امیدوں اور ارمانوں کا لہو رِستا رہے گا ۔ایک بات تو صبحِ روشن کی طرح عیان ہے کہ جس طرح بندوق کی نالی سے کبھی بھی پھول نہیں جَڑتے اور نہ ہی سیلاب کی بپھری اور بے قابو لہریں زندگی کا پیام لا سکتی ہیں ۔جیسے نزلہ زکام کی صورت میں پیر وں میں آیوڈیکس کی مالش نہیں کی جاتی اور نہ ہی پاؤں میں موچ آنے کی صورت میں میو کین کا شربت پیا جاتا ہے اسی طرح موجودہ سیاسی و معاشرتی اور معاشی بگاڑ کی درستگی کے لیے دورِ حاضر کے سیاسی رہنماؤں سے بہتری کی اُمید رکھنا اور کچھ بہتر ہونے کی خواہش لیے ہر بار اپنا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں دینا بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے استری کی تار سوئچ بورڈ میں لگا کے پی۔ایس۔ایل کے خواب دیکھنا ۔اس پہ سوچئے گا ضرور!!

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے