حلوے والی شہادت

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک لطیفہ کہیں پہ پڑھا تھا ۔ لطیفہ کچھ یُوں تھا کہ ایک مولوی صاحب نماز کے بعد بڑے ہی خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ کے حضور گڑگڑا کے دعا مانگ رہے تھے اور ایک ہی الفاظ بار بار دُہرا رہے تھے کہ ” یا اللہ شہادت دیدے ، یا اللہ شہادت دیدے” ۔ ساتھ ہی ایک سادہ لو ح دیہاتی بیٹھا ہوا یہ سب کُچھ سُن رہا تھا اور مولوی صاحب کے فارغ ہونے کا انتظار کررہا تھا لیکن مولوی صاحب کسی بھی طرح سے بس کرن
ے پہ نہیں آرہے تھے اور اُن کا ذوقِ شہادت بڑھتا ہی چلا جارہا تھا ۔ بالآخر دیہاتی شخص کا پیمانہء صبر لبریز ہوگیا اور اُس نے مولوی صاحب کے کندھے پہ ہاتھ رکھکر اُسے اپنی طرف متوجہ کیا اور اُن سے کہا” مولوی صاحب ! جہاد تے تُسی جاندے نئیں او ، تے حلوے دی پلیٹ وِچ بم ہوندا نئیں اے ، شہادت فیر کتھوں آندی اے” ( مولوی صاحب جہاد پہ آپ نہیں جاتے حلوے کی پلیٹ میں کوئی بم نہیں رکھتا شہادت کیسے ملے گی ؟؟)۔ بہ حیثیتِ قوم کُچھ یہی حال ہم سب کا بھی ہُوا ہے ۔ چاہے ملک کے کسی بھی کونے سے تعلق رکھنے والا اور کسی بھی طبقہء فکر کا نمائندہ ہو ہر کوئی موجودہ سیاسی،معاشی اور معاشرتی حالات سے نالاں ہے اور اپنے اپنے وضع کردہ معیارو منشور کے مطابق حالات میں فوری اور یکسر تبدیلی چاہتا ہے تاکہ ہمارے حالات ٹھیک ہو پائیں اور ہم حالیہ اور کئی برسوں پہ محیط اس بحرانی کیفیت سے نکل جائیں ۔لیکن بات پھر وہیں پہ آجاتی ہے کہ مولوی صاحب کی طرح خود کو بدلنے اور اپنی طرف سے قْربانی دینے کے لیے کوئی بھی آمادہ و تیار نظر نہیں آتا ۔ہر کوئی چاہتا ہے کہ قربانی کا بیج کوئی اور بوئیں اور پھل ہمارے حصے میں آئے اور اس میں کیا قدامت پسند اور کیا جدیدیت کے پجاری سارے ہی ایک صف میں نظر آتے ہیں ۔ہمارا ملک اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا ہے اور اہلِ اسلام کی غالب اکثریت وطنِ عزیز میں بستی ہے اس لئے ہماری عوام کا ایک حصہ اسلامی انقلاب کو موجودہ بحران کا حل سمجھتا ہے اور اسلامی انقلاب لانا چاہتاہے ۔لیکن اُن کی بھی اکثریت یہی چاہتی ہے کہ اسلام اور نظامِ اسلام کُچھ اس طرح کا ہو کہ جو بہ وقتِ ضرورت اُن کے مفادات سے کنی کتراتا ہوا گذر جائے ۔ اُن کی خواہش ہے کہ اسلامی انقلاب تو آئے لیکن اسلامی قوانین پر عملدرآمد سب کے لئے یکساں نہ ہو ۔بہ الفاظِ دیگر موقع محل دیکھ کے ان کا استعمال کیا جائے۔شریعت بے شک آئے سو بار بسم اللہ لیکن اُس کے جھوٹ کا کاروبار یونہی چلتا رہے ۔ اس کی ناجائز منافع خوری پہ کوئی قدغن نہ لگائے ۔اُس کی منافقت ، کرپشن، لوٹ کھسوٹ کی بابت کوئی اُس سے نہ پُوچھے ۔ ہم میں سے چند ایک کو چھوڑ کر اکثریت اگر اسلامی انقلاب بھی لانا چاہتی ہے تو اسلام اور قرآن کا نام لے کے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر، کہ جس میں بلاشبہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہی ہو لیکن وہ کَٹا ہُوا ہاتھ اُس کا اپنا نہ ہو ۔جان کے بدلے جان، مال کے بدلے مال ، کان کے بدلے کان اور آنکھ کے بدلے آنکھ ہو لیکن ان میں سے کوئی بھی چیز اُس کی اپنی نہ ہو۔ زانی کو بے شک سنگسار کیا جائے لیکن کوئی پتھر اُن کی طرف نہ آئے ۔سرکار ی خزانے کی پائی پائی کا بے شک حساب کیا جائے لیکن اُن کے ذاتی گوشواروں اور بہی کھاتوں تک کسی کی رسائی نہ ہو ۔دوسر ی طرف بالکل اور ہو بہو یہی حال ہمارے ہمارے دیسی لبرلز ، مقامی سیکولرز ، موم بتی بردار آنٹیوں اور اُن کے نامدار و بے چار شوہروں کا بھی ہے کہ جو اپنے مفاد اور مقصد کے لئے تو رائی کے پہاڑ بنائیں ، سورج کے آگے دن دیہاڑے چراغ جلائیں لیکن جب وہی بات اور وہی معاملہ اُن کے اپنے مفاد کے خلا ف یا دلچسپی سے قطعِ نظر ہو تو پھر آنکھ اوجھل ، پہاڑ اوجھل کی رنگین اور بلیک اینڈ وائٹ تصویر بن جائیں ۔بحیثیتِ فرد مجھے انقلاب سے کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ آپ کی طرح میں بھی اسی سڑیل اور بدبو دار ، پُر تعفّن نظامِ زندگی کی گلیوں میں جی جی کر اپنی زندگی سے تنگ آگیا ہوں ۔ مجھے بھی یہاں سے نکلنا ہے کسی بھی طرح اورکسی بھی صورت ۔ لیکن کب ، کہاں اور کیسے ؟ اس کی مجھے کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے ۔ایک مکمل اسلامی نظام بے شک مجھے اس دلدل سے نکال سکتا ہے لیکن اگر ہمارے ایوانوں میں اسلام آگیا (صحیح معنوں میں) تو میری مادہ پرستی ، حرص و ہوس ، تن آسانی اور عیش پسندی کا کیا ہوگا کہ جو میری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے اور جس کا میں اتنا عادی ہوچکا ہوں کہ اب اس کے بِنا جینے کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا ۔میں آج تک اپنے اس ساڑھے پانچ ، پونے چھ فٹ کے جسم پہ اسلامی احکامات لاگو نہیں کر سکا کہ جس کا میں مالک و مختا ر ہوں پور ے معاشرے اور اٹھارہ کروڑ کی آبادی پہ کیسے کر سکتا ہوں کہ جس میں جھوٹ کے علاوہ تجارت نہیں ہوتی ، سود کے علاوہ کاروبار نہیں ہوتا ، رشوت نہ ہو تو ملازمت نہیں ملتی ، عدل کا دروازہ کھٹکھٹاؤ تو بدلے میں انصاف کے دھکے ملتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ کے جس میں دوسرے کو کافر ثابت کرنا اپنے ایمان کو ثابت کرنے سے کہیں زیادہ آسان اور سہل ہو اس میں اسلامی نظا م اگر آبھی گیا تو اکثریت میں ہمیشہ ہمارے خود ساختہ کافر ہی ہوں گے ۔دوسری بات اگر اسلامی نظا م آ بھی جائے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ محمد ﷺ کا اسلامی نظام ہی ہوگا ۔وہ دیوبندی ، بریلوی یا وہابی اسلامی نظام نہیں ہوگا۔

دوسری صورت جمہوری انقلاب کی ہے کہ جس کے پیچھے ہمارے سارے جدیدیت کے علمبردار چاہے لبرلز ہو ں یا سیکولرز یا سول سوسائٹی کے موم بتی بردار ڈنڈا لے کے لگے ہُوئے ہیں اس بات کو جانتے اور مانتے ہُوئے بھی کہ "ہنوز دلّی دور است ” کے بالمثل یہ بھی ہمارے لئے صرف ایک خواب ہی ہے کیونکہ جس ملک میں دولت کا اسی فیصد چند خاندانوں کے پاس ہو اُس ملک میں مسندِ حکمرانی پہ چاہے کوئی بھی ہو کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ حکومت انہی چند لوگوں کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے ۔ بالواسطہ یا پھر بلاواسطہ ۔ میرے ملک میں جب بھی جمہوری تبدیلی آئی ہے سیاسی کلچر وہی اور وہیں کا وہیں رہا ہے ۔ہاں بس یہ ضرور ہُوا ہے کہ کے پی کے میں ایک خان کی جگہ دوسرا خان ، پنجاب میں ایک چوہدری اور میاں کی جگہ دوسرا چوہدری یا میاں، سندھ میں ایک وڈیرے کی جگہ دوسرا وڈیرہ اور بلوچستان میں ایک سردار کی جگہ پہ دوسرا سردار ہمیں نظر آیا ہے ۔ اب اگر ان تمام حقائق کے باوجود بھی ہم کسی انقلاب کی امید پہ جی رہے ہیں تو پھر وہی مولوی صاحب والی دُعا ہی مانگنی چاہئے کہ "یا اللہ شہادت دیدے،یا اللہ شہادت دیدے، میدانِ جنگ والی نہ سہی ، حلوے کی پلیٹ والی ہی سہی”

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے