اہلیانِ چترال کے لیے ایک عظیم تحفہ

مسائل  و دشواریوں سے مبرا اور پاک کوئی بھی معاشرہ ، قوم اور حکومت نہیں ہوتی ۔ ہر معاشرے کے اندر بہت زیادہ یا کچھ نہ کچھ مسائل ضرور ہوتے ہیں ۔ یہ عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ذاتی اور اجتماعی ۔ ذاتی کا تعلق معاشرے کے ایک خاص طبقے سے ہوتا ہے جبکہ اجتماعی مسائل سب کے سانجھے ہوتے ہیں اور معاشرے کا ہر فرد اس سے کسی نہ کسی حد تک ضرور متاثر ہوتا ہے ۔اس لیے جب بھی کسی بھی مہذب اور متمدن معاشرے میں اجتماعی مسائل کی بات چھڑتی ہے تو سارے ہی اپنے تمام تر اختلافات کو پسِ پُشت ڈال کے اس کے حل کے لیے ہم آواز اور کوشاں ہوتے ہیں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور جن کے لیے اس حد تک جانا ممکن نہیں ہوتا تو وہ دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور جو بھی فریق یا گروہ اس اجتماعی مسٔلے کے حل کے لیے آگے بڑھ کے کام کرتا ہے اس کو بلا کسی تفریق کے سراہتا ہے کیونکہ اجتماعی مسئلے کا تعلق کبھی بھی کسی فردِواحد یا کسی خاص گروہ یا کمیونٹی سے نہیں ہوتا اس سے سارے ہی مستفید یا متاثر ہوتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی مثال ہمارے ضلع چترال کی ہے کہ جس کا سب سے بڑا مسئلہ آزادی کے پہلے دن کے پہلے پَل سے لے کے آج تک اور ابھی تک باقی ملک سے آساں ، یکساں اور سال بھر کے ذرائع آمدو رفت کا ہے کہ جس کی راہ میں لواری ٹاپ پچھلے کئی صدیوں سے اک عفریت کی طرح سر اُٹھا کے اور سینہ تان کے کھڑا ہے کہ جو پُورا سال بڑے اہتما م سے ہم میں سے کئی چترالیوں کا بلیدان مانگتا ہے اورآج چترال میں کوئی بھی گاؤں اور قصبہ ایسا نہیں بچا ہے کہ جس نے اپنے جگر گوشے ا س ظالم درے کے خون کی پیاس بجھانے کے لیے پیش نہ کیا ہو۔کبھی برف سے ڈھکی چوٹیاں تو کبھی سرکتے ہوئے برفانی تو دے اور کبھی سب کچھ بہا کے لیجانے والا سیلابی ریلہ ۔ آزمائشوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ تھا کہ جو کسی اجتماعی گناہ کی پاداش کی طرح ہماری سات پُشتوں سے چِمٹا ہوا تھا ۔اب اللہ اللہ کر کے اس عفریت سے ہماری جان چھوٹنے جارہی ہے اور کیونکہ آج  ہمارے وزیر اعظم صاحب نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا اور اب   اللہ کا شکر ہے  کہ سال کے کسی بھی مہینے میں وادی کے کسی بھی کونے سے آنے والا کوئی بھی مریض ، انٹرویو یا ٹیسٹ دینے جانے والا طالبعلم اور محنت مزدوری کے لیے جانے والا کو ئی بھی شخص بلا کسی دقت اور حیل و حجت کے وطنِ عزیز کے کسی بھی کونے میں اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکے گا ۔ لواری ٹنل کی تکمیل بلاشبہ ہماری تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنہرے الفاظ سے لکھا جانے والا باب ہوگا اور بلاشک وشبہے کے ہر وہ شخص اور فرد اس کے لیے خراجِ تحسین کا مستحق ہے کہ جس نے کسی بھی فورم پہ اس کے لیے کام کیا ہو اور آواز اُٹھائی ہو۔ ہم آج سے چار دہائیاں پہلے اس وقت کے وزیراعظم کے بھی تہہِ دل مشکور ہیں کہ جنہوں نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور اُس بے سروسامانی کے عالم میں بھی اس کام کے لیے کمر کس لی اور اس پہ کام کا آغاز کر بھی لیا اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایک آس ، امید اور مثال چھوڑی ۔ہم اُن مولوی صاحب کے بھی مقروض و مشکور ہیں کہ جنہوں نے ایک تنظیم بنا کے اس کے لیے ہر فورم پہ آواز اُٹھائی اور اس کی اہمیت و حساسیت کو ملک کے ایوانوں میں اُجاگر کیا ۔ ہم اُن جرنیل صاحب کا بھی شکریہ ادا نہیں کر سکتے کہ جنہوں نے ذاتی اور خصوصی دلچسپی اس میگا پراجیکٹ میں لی ۔ اس پہ کام کا آغاز کیا اور بے شک اگر وہ اقتدار میں رہتے تو آج سے کئی سال پہلے ہی یہ عظیم منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہوتااور تو اور ہم نے تو اُن لوگوں کا معاملہ بھی اللہ پہ چھوڑدیا ہے کہ جو کسی نہ کسی طرح اس کی تکمیل میں رکاوٹ بنے رہے اور جن کی وجہ سے ہماری موت و حیات کا یہ منصوبہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہوتے ہوتے رہ گیا۔ تما م تر سیاسی اختلافات کے باوجود یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کہ لواری ٹنل کی تکمیل حکومتِ وقت کی جانب سے ہم اہلیانِ چترال کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے ۔ اُن کے لیے بھی جوحکومت کو مانتے ہیں اور اُن کے لیے بھی جو نہیں مانتے ۔کیونکہ ہماری طرف سے حکومتِ وقت پہ کوئی دباؤ، کوئی پریشر نہیں تھا کہ جس کے بَل بوتے پہ ہم اپنی موت و حیات کا یہ مسئلہ حل کراپاتے اگر اس طرح کی کوئی قابلیت اور صلاحیت ہم میں ہوتی تو بہ حیثیتِ قوم بہت پہلے ہی ہم یہ مصیبت کا طوق اپنے گلے سے اُتار کر پھینک چکے ہوتے۔لواری ٹنل کی تکمیل بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی ہمارے اُوپر مہربانی کا اظہار ہے کہ جس کے لیے اس ذات نے حکومتِ وقت کو وسیلہ بنایا جس پہ ہم اللہ تعالیٰ کی عظیم و کریم ذات کا سو ، ہزار ، لاکھ اور کروڑ بار شکر ادا کرتے ہیں اور موجودہ حکومت کے کرتا دھرتاؤں اور باالخصوص وزیر اعظم پاکستان جناب محمد نواز شریف صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کی ذاتی اور خصوصی دلچسپی سے آ ج ہمیں یہ دن دیکھنا نصیب ہورہا ہے کہ جس کی آس دل میں اور سپنے آنکھوں میں لیے ہماری کئی پُشتیں گُذر گئیں اور نہ جانے کئی نسلیں اور گذر جاتیں۔ باقی ہمارے وہ نیم بیمار سیاسی رہنما اور اُن کے نقشِ قدم پہ چلنے والے ان کے پیروکار(کسی بھی جماعت سے اُن کا تعلق ہے) کہ جو انڈیا کی ” میں نہ مانوں ” والی پالیسی کو اپنا قبلہ و کعبہ بنا کے ہر کام میں کیڑے نکال کے اپنی گندی سیاسی چُورن بیچنا چاہتے ہیں اُن سے ہماری یہی ہاتھ جوڑ کے در خواست ہے کہ ” نہیں یاراب نہیں ،، اس بار نہیں۔۔ اس بار یہ خالی خولی سیاسی گولہ باری سے کُچھ نہیں بننے والا کیونکہ لواری ٹنل پانچ لاکھ سے زائد آبادی والے ضلع کا مشترکہ مسئلہ ہے اور تمام تر سیاسی ، لسانی ، علاقائی اور مذہبی مسائل و تفرقات اور اختلافات کے باوجوداس ضلع کے باسی ہر اُس شخص سے پیار کرتے ہیں اور اُس کو عزت دیتے ہیں کہ جس نے کسی بھی طرح سے لواری ٹنل کے معاملے میں کام کیا ہے او ر آواز اُٹھائی ہے ۔اگر آپ کے سیاسی اَن داتاؤں نے اس سلسلے میں کوئی بھی یا کہیں بھی کام کیا ہے تو براہِ کرم سامنے لے آئیں ہم تمام تر سیاسی ، لسانی ، علاقائی اور مذہبی مسائل و تفرقات اور اختلافات کے باوجوداس کے بھی پیر دھو دھو کے پئیں گے ۔ اگر نہیں کیا ہے تو چُپ چاپ اس عظیم کام کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانے والوں کو دُعائیں دے کر (چلیں نہ بھی دے کر)اس ٹنل سے گذر جائیں اور اگر پھر بھی سیاست اور پارٹی بازی کو ہی اپنا قبلہ و کعبہ اور خدا سمجھتے ہوئے ” میں نہ مانوں ” کا ہی وِرد مسلسل کرنا ہے تو میری اور میری پوری قوم کی طرف سے آپ سب سے اتنی ہی گذارش ہے کہ ۔۔۔ ” نہیں یا راب نہیں ،، اس بار نہیں۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے