ہماری پرائمری تعلیم نقائص،مشکلات اور ان کا ممکنہ حل

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کی ابتدائی درسگاہ ماں کی گود ہے۔ماں کی گود سے معاشرے میں قدم رکھنے کے بعد بچہ اپنی ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول سے حاصل کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بچے کی قابلیت کا تمام تردارومدار پرائمری تعلیم کی بنیادوں پر منحصر ہے  ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

خشت اوّل چُون نہد معمار کج                                        تاثریا می رود دیوار کج

انگریزوں نے اپنے اس غلام رعایا کے لیے جو نظام تعلیم وضع کیا تھا اُ ن کا  مقصد یہ تھا کہ یہ قوم کبھی بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہو ،ان کی سوچ ہمیشہ محدود رہے اور نہ ہی یہ ذہنی طور ترقی کرسکے ان کی وضع کردہ تعلیم سے آراستہ لوگ صرف دفتر کے بابو اور باڑے کے ٹٹو ہی بن سکیں ۔قیام پاکستان کے بعد اس المیے کو محسوس کرتے ہوئے کئی بار تعلیمی کمیشن قائم ہوئے ۔ انہوں نے ٹھوس اور مثبت سفارشات پیش کیں  لیکن پاکستان کے قومی بجٹ میں تعلیم کے حصص کے سامنے ان کی تحاریر بھینس کے آگے بین  بجانے کے مترادف تھی کیونکہ پورے بجٹ کا دو فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص تھی وہ بعد میں بمشکل چار فیصد تک بڑھا دی گئی۔اس کی وجہ بھی غلامی کی وہ زنجیریں تھیں کیونکہ جس قوم کے ہم غلام تھے اس نے ہمیں غلامی سے ظاہری طور پر آزادی تو دلا دی  لیکن ابھی تک ہم اس کی ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔کیونکہ وہ جب چاہتے ہیں ہمیں بٹیر یا مرغا لڑانے کے مترادف  لڑا تا ہے  اور ساتھ ساتھ امداد کی صورت میں ہمیں دانہ کھلاتا رہتا ہے ۔روسی انقلاب کے دوران کی امداد آج ہمارے لیے سم قاتل ثابت ہورہی ہے ۔ اس کے علاوہ ہم دونوں ہمسایہ ممالک صہیونی حربوں کے اشاروں پر ناچتے ہوئے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے ہیں اور دونوں قوموں کی عسکری قیادت اس تناؤ کو اور ڈروانی اوڑھنی پہنا کر اپنی شاہانہ ٹھاٹھ کو طویل بنانے میں مصروف ہیں  یہی وجہ ہے کہ ہمارے بجٹ کا ستّر فیصد حصہ اس مد میں خرچ ہوتا ہے ۔

اگر بنظر ِ غائر دیکھا جائے تو تعلیم کیا ہے؟ اور دفاع کیا ہے؟ تعلیم انسان کا زیور ہے ۔تعلیم کا مقصد امن ،خوشحالی، ذہنی آسودگی  اور ترقی ہے جبکہ دفاع ہمیشہ دوسروں کو پچھاڑنے  کے لیے  خون خرابے کی خاطر نت نئے حربوں کا استعمال کرنا ہے ۔ انہی حالات کے تناظر میں  ہم تعلیم کی طرف توجہ نہ دے سکے ہیں ۔اب دیکھتے ہیں  پرائمری تعلیم کی اصل صورت حال مملکتِ خداد میں کیا ہے ۔ ہمارے تمام پرائمری اسکولوں  میں پانچ کلاسوں کے لیے دو  کمرے  ہیں اور پڑھانے کے لیے دو  ہی ٹیچرز ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت ہی پرائمری اسکول  کھلے آسمان تلے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ دور دراز پرائمری اسکولوں کے اساتذہ ٔ کرام سیاسی ریشہ دوانیوں  کی بدولت اپنے آپ کو مقامی اسکولوں میں ٹرانسفر کراتے ہیں  اور دور افتادہ مشکل ترین خطوں کے سیٹس ہمیشہ Vacant  ہی رہتے ہیں ۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ ایک استاد چھے کلاسس  ، پھر بھی اگر ایک کمرہ تین کلاسس ہو استاد جماعت چہارم کے سامنے بال فریم لاکر ریاضی سکھا رہا ہو تو کیا تیسری جماعت کے طلبہ انگریزی کی طرف توجہ دے سکیں گے۔تین کلاسس کے لیے چالیس منٹ کا دورانیہ ہے اور ایک کلاس کے لیے ۱۳ منٹ استاد کے پاس ہے ۔سوچنے کا مقام یہ ہے کہ استاد کیسا ہی مہان کیوں نہ ہو  اس ۱۳ منٹ کے دورانیے میں حاضری  لینے، ہوم ورک چیک کرنے سے لے کر اپنے سبق کو جدید تدریسی معاونات کا استعمال کرتے ہوئے کیسے پڑھائے گا۔انہی حالات کے پیشِ نظر جو بھی رزلٹ دیکھا رہا ہے وہ قابلِ صد آفریں ہے۔اس کے باوجود کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے مقابلے میں ہمارے پرائمری استاد کا کیڈر سب سے کم  درجے کا ہے۔

یہ ہیں ہماری مجبوریا ں اور مشکلات  اور ان مشکلات سے ہم کسی صورت نہیں نکل پا رہے ہیں ۔لیکن اپنے طریقہ ٔ کار میں ہم معمولی تبدیلی اگر لا سکیں  تو بہتری کی امید پیدا ہوسکتی ہے  وہ اس طرح  کہ پرائمری اسکولوں کے اوقات کار میں تبدیلی کر کے اسے دو شفٹ میں تقسیم کیے جائیں۔ پہلا شفٹ اول ادنیٰ ، اعلیٰ اور دوم پر مشتمل ہو ، ان کے لیے چار گھنٹے کا وقت مختص کیا جائے ۔ اس طرح ایک استاد کے پاس سات  پریڈ ہونگے اور ہر پریڈ کا دورانیہ ۳۰ منٹ کا ہو گا۔اس طرح دوپہر کا دورانیہ جماعت سوم، چہارم،پنجم کے لیے وقف ہوگا ۔ ان کا دورانیہ بھی ساڑھے تین گھنٹے ہو  ۔ اس سے استاد پر ایک گھنٹے کا زائد بوجھ پڑھے گا جس کے لیے اسے یومیہ صرف ۱۰۰ روپے ٹیچنگ الاؤنس دی جائے  تو استاد مطمئن ہوگا ۔اس طرح پرائمری تعلیم میں بہتری لا کے ہم اپنے نو نہالوں کی بنیاد کو مضبوط بنا سکیں گے۔ یہی مرے ناقص ذہن کی پیداور ہے ۔ میری حیثیت چیونیٹی سے کچھ زیادہ نہیں خدا کرے پھر سے کوئی سلیمان پیدا ہو اور میری فریاد کو سن سکے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے