ہر گام پر چند آنکھیں نگران!!

شندور کا درہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر اور چترال کو ملانے والی مشہور درہ ہے ۔آزمنۂ قدیم میں کشمیر اور وسط ایشیا سے آنے والے کئی حملہ آور یہیں سے ہوکر گزرے۔۱۸۹۵ء میں انگریزی فوج کرنل کیلی کی کمان میں اسی درے سے چترال پر حملہ آور ہوئے ۔انگریزوں کے قبضے سے پہلے چترال بونجی سے لے کر اسمار تک خودمختار ریاست  تھی ۔ان حکمرانوں کا پائہ تخت کبھی چترال اور کبھی گلگت اور کبھی یاسین ہوا کرتی تھی ۔انگریزوں کے قبضے کے بعد ریاست چترال نہ صرف ان حدودات سے محروم ہوگئی بلکہ اپنی خودمختار حیثیت کھو کر باجگزار ریاست بن گئی ۔اسی ریاست چترال کی چھت پر شندور کا یہ پولو گراؤنڈ بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع سیاحوں اور تماشائیوں کے لیے دلچسپی کا مرکز ہے۔کافی وسیع رقبے پر پھیلا ہوا یہ سبزہ زار وادی غذر اور لاسپور چترال کے باشندوں کا چراگاہ بھی ہے۔جھیل شندور  جو کہ رنگ برنگی مرغابیوں کا مسکن ہے اس  کے حسن کو اور بھی دوبالا کردیتا ہے۔

ہر سال گر میوں کے موسم میں جبکہ پوری دنیا چلچلاتی دھوپ میں نیم بے ہوشی کے عالم میں ہوتی ہے اسی  بلند و بالا پولو گراؤنڈ کے پر فضا ماحول میں شندور کا میلہ منعقد ہوتا ہے۔عرصۂ قدیم سے گلگت اور چترال کی مختلف ٹیموں کے مابین  پولو کا کھیل جو کہ کھیلوں کا بادشاہ ہے کھیلا جاتا ہےاور ساتھ ہی رات کے وقت  رقص و موسیقی کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔

یوں تو دنیا میں ہر قسم  کی شائقین  ہیں اُن کھیلوں میں کھلاڑی کی مہارت اور پھرتی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔لیکن پولو کو دوسرے کھیلوں سے اگر موازنہ کیا جائے تو یہ بات حیران کن ہے کہ اس کھیل کا کھیلاڑی ایک طاقتور ترین اور مہیب جانور کو اپنے قابو میں رکھ کر اپنی جوانمردی اور شہسواری کا مظاہرہ کرکے اپنے مد مقابل سے بازی لے جاتا ہے وہ جانور بھی اس نوعیت کا ہے اس کے ہانپتے ہوئے دوڑ کی ہیبت ناک ہیجانی کیفیت کا رب ِ کائنات قرآن میں قسم کھاتا ہے۔حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو یہ کھیل کھیل نہیں بلکہ محاذ ہے۔اسی کھلاڑی کا ایک وا رتلوار کے وار سے کم نہیں ۔اس کا حملہ تُوپ کے گھن گرج کی مانند ہے۔مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کرکٹ کے کھلاڑیوں پر کروڑوں  رقم خرچ ہوتی ہے اور وہ یورپ کے کلبوں میں رنگ رلیاں مناتے ہیں مگر پولو کے یہ کھلاڑی شندور کے میدان میں کُھلے آسمان تلے ننگے فرش پر سوتے ہیں۔اس سے ہمارے اربابِ اقتدار کی بے حسی  کھل کر واضح ہوجاتی ہے ۔خاص کر اس سال کھلاڑیوں کو جب انعام دینے کا موقع آیا تو 1stٹیم کے کھلاڑیوں کو ایک لاکھ دس ہزار اور سیکنڈ ٹیم کے کھلاڑیوں کا انعام ستّر ہزر روپے تھیں۔

بہر حال پھر بھی یہ کھیل سال  میں ایک دفعہ اسی بلندی پر اور پر فضا مقام میں کھیلے جانے کی وجہ سے شائقین اور سیاحوں کو تفریح کا سامان مہیا کرتا ہے اور لوگ ملک کے کونے کونے سے تفریح کے لیے یہاں آجاتے ہیں ۔

مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ ان دوسالوں کے دوران ہماری مسلح افواج نے انہیں کانٹے دار پنجرہ بنا دیا ہے اور تماشائی قیدی کی شکل میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں گویا کہ یہ کہوٹہ کا ایٹمی پلانٹ ہے جہاں پر پرندوں کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں اور تو اور پولو گراؤنڈ کے دونوں طرف پتھروں کے منڈیر پر بھی تماشائیوں کو بیٹھنے کی اجازت نہ تھی ۔کھیل کے میدان سے باہر بھی تماشائیوں کو قدم قدم پر سپاہیوں کو شناختی کارڈ دکھانے کا منظر دیکھ کر مجھے اکبر الہ آبادی کا یہ مشہور شعر یاد آگیا ۔

ہر گام پر چند آنکھیں نگراں             ہر موڑ پہ ایک لائیسنس  طلب

اسی باغ میں اے اکبر                 ہم نے بھی ٹہلنا چھوڑ دیا

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے