چترالی ثقافت عروج و زوال کے آئینے میں

باوثوق تاریخی شواہد کے مطابق چترال کی سرزمین میں دو قومیں آباد تھیں ایک کلاش اور دوسرا کھو ۔کالاش قوم زیریں حصے پر آباد تھی جبکہ کھو قوم بالائی حصے پر آباد تھی۔ دونوں قوموں کا تمدن رسم و رواج ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا۔ بعدازاں چین اور وسطاایشیاء سے مختلف اقوام جیسے رائیس اور مغل آکر چترال میں آباد ہوگئے۔ رائیسوں کے دور میں اولیائے کرام کے ہاتھوں یہاں اسلام کا ظہور ہوا۔ بعد میں اور بھی بہت سی قومیں قرب و جوار بالخصوص افغانستان اور وسط ایشیا سے آکر یہیں کے ہو کر رہے۔ چنانچہ یہ معجوں نما قوم اپنی گوناگونی کے باوجود ایک پائیدار ثقافت کا حامل ہے۔آئیں اس کی ثقافت کے مختلف پہلووں کا ماضی اور حال کے تناظر میں کچھ تجزیہ کریں۔
ادب: کھوار آدب قدیم دور میں صرف لوک گیتوں تک محدود تھیں۔ بہت کم شعراء ایسے ہونگے جنہوں نے ایک سے زیادہ گیت گائے ہوں۔ یہی شعراء حقیقی شاعر ہیں ۔ عاشق کے گانے کے بول، دھن، موسیقی سب کچھ ان کے دل کی آواز تھی۔ اس میں کسی قسم کی بناوٹ اور تصنع نام کو نہ تھی جو کچھ جی میں آیا زبان سے کہہ دیا پھر بھی چند بلند پایہ صاحب دیوان شاعر ہو گزرے ہیں ۔ان میں محمد صفا، بابا محمد سیر، اتالیق محمد شکور غریب، قدیم شعراء میں آماں، زیارت خان زیرک، میر بادشاہ، شہر ملک، گل من، رستم، آزمنہ وسطیٰ کے مشہور چترالی گیتوں کے خالق ہیں۔
موجودہ دور میں غزلوں نے گیتوں کی جگہ لے لی ہیں۔ آئے دن جابجا مشاعرے اور موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں۔ لیکن قدیم شاعری میں گیتوں کے جو الگ الگ دھن یا ساز ہوتے تھے وہ موجودہ دور میں کہاں ہیں۔ قدیم دور کی مشہور دھنیں جو کہ ہماری موسیقی کے نمایاں حصہ تھے کچھ یوں ہیں۔ مثلا ششتووار، پون وار، غاڑ وار، جنگوار ایسے لوک گیت تھے جو کہ موقعوں کی مناسبت سے چترالی نے( سرنائے) یا پائپ میں بجائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ چترالی زبان کے عام گیتوں کے بھی الگ الگ ساز ہوتے تھے۔ ڈانسر بھی ہر ساز کے مطابق ناچتا تھا۔ مثلا دنی ایک الگ قسم کا ساز ہوتا تھا۔ جبکہ اشورژان، یارمن ہمین اور خوش بیگم وغیرہ کے ساز الگ ہوتے تھے۔
پائپ میں بجائے جانے والے اہم گانوں کے سازوں کے نام یہ ہیں۔ دنی، رستمو ہنگ، اشورژان، لالوزنگ، نندوشی، گل پھوناکی، بروازی، شب دراز، ڈوک یخدیز، سید وغ، رنگ ژیری، لیک ژور، وغیرہ۔
چترالی موسیقی میں ہر موقع کے الگ گانے ہوتے ہیں۔ بہن کی رخصتی پر لیک ژور۔ راستے میں جاتے ہوئے ششتووار، پون وار۔ پولو کھلنے کے لیے غاڑوار۔ جنگ کے لیے ژانگوار۔ یہاں تک کہ شکاری اگر مارخور، ہرن وغیرہ کا شکار کرے تو اس موقع پر جو گیت گایا جاتا ہے اسے غورو کہتے ہیں۔ باز کے پکڑنے کا کام بھی کافی مہارت کاہے اسے پکڑنے کے بعد اس کے لیے خاص گیت گایا جاتا ہے۔ اسے شودونگ کہتے ہیں۔ قدیم موسیقی کی محفلوں میں ڈول، دمادے اور نے ہوتے تھے۔ ابھی نے کی جگہ پائپ نے لے لی ہے۔ عام مجلسوں میں دف کا رواج بہت زیادہ تھا۔ کہیں کہیں ستار کی مجلس ہوتی تھی۔ مگر اب یہ سب سمیٹ کر فنکارو کی سریلی آواز صرف غزلوں کے لیے وقف ہے اور دف کی جگہ جیرکین نے لے لی ہے۔ ان رنگ رنگ کے سازوں کا نوجواں نسل کو پتہ تک نہیں اور نہ ہی ان سازوں کے مطابق رقص کرنے والا آپ کو ملے گا۔
اس کے علاوہ محفل موسیقی میں قدیم طرز کے خاص قسم کے لوک گیت اور رقص اور پھستک اور نوہرتک بھی تھی۔ پانچ چھ آدمی ایک ساتھ گاتے اور بڑے فنکارانہ انداز میں اٹھتے بیٹھتے رقص کرتے تھے۔ جس سے محفل موسیقی میں بہت جان پڑتی تھی۔ وہ چیز اب بالکل ناپید ہوگئی ہے۔
رسم سال غیریک: یہ ایک رسم تھی جو نئی سال کی آمد کی خوشی میں ہر سال ۲۱ جنوری کو منایا جاتا تھا۔ پہلے دن گھر کے سارے چھتوں سےگندگی کو صاف کیا جاتا۔ دوسرے دن صبح سویرے گھر کا مالک باہر نکل کر دروازے پر یوں پکارتا۔ بمبارک باشد نئے سال لے آیا۔ خوشی لے آیا، تندرستی لے آیا۔ بیٹے کے لیے بہو لایا، بیٹی کی شادی کرا دی۔ بیل کو گھر لے آتے اسے خاص کھانا کھلاتے۔ اس کے سینگ پر تیل ملتے۔ دن کے وقت گاؤں کے جوان لوگ ملکر گھر کے چھت پر آکر محفل موسیقی سجاتے۔ گھر والے ان کے لیے کھانا اوپر بھیجتے۔ ایک عمر رسیدہ آدمی چھت کے روزن کماڑ سے وہ الفاظ دھراتے جو گھر والا صبح کہہ دیا تھا۔ موسیقی کے اختتام کے ساتھ ہی گھر والوں اور باہر والوں کے درمیان برف کے گولے مارنے کا مقابلہ ہوتا تھا اس طرح خوشی کی رسم اختتام کو پہنچتی تھی۔
رسم پھیندک: مئی کے مہینے میں بکریوں کو پہاڑوں پر چرانے لے جاتے ہوئے یہ تہوار منائی جاتی تھی۔ گھر میں دودھ کی بنی ہوئی طعام پکتے تھےانہیں سب اپنے ساتھ لے کر گاؤں سے باہر چراگاہ میں سبزہ زار پر لے جاکر کھاتے تھے۔ بکروں کو خاص قسم کی آوازیں دیتے ہیں وہ دوڑ کر آپ کے پاس آتے ہیں۔ کھانا کھانے کے بعد سب جوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے پر پانی چھڑکتے تھے۔ یہی رسم پھندک تھی جو کہ اب کسی کو یاد بھی نہیں۔
بقایا اگلے شمارے میں

Print Friendly, PDF & Email