ہمارا مطالبہ ضلع ثانی کی بحالی

ضلع چترال پاکستان کے انتہائی شمال مشرق میں پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا وسیع رقبے پر پھیلا خطہ ہے ۔جغرافیائی حدود کے لحاظ سے یہ روس چین او ر افغانستان کے سنگم پر واقع ہے ۔اس کی بہت لمبی سرحدیں براہ ِ راست افغانستان سے جا ملتی ہیں جبکہ بالواسطہ اس کی سرحدیں بہت قریب سے روس اور چین سے بھی جاملتی ہیں ۔اکثرو بیشتر وسط ایشائی قافلے  اس کے راستے سے ہندوستان آتے جاتے تھے۔ مشہور فاتح عالم سکندر اعظم اسی راستے سے جنوبی ایشیا میں آوارد ہوئے تھے۔ماضیٔ قریب میں یہاں کے قبائلی حکمرانوں نے اپنے مضافات کی وادیوں  یعنی اسمار ،باجوڑ،داریل ،گلگت ،یاسین ،پونیال وغیرہ کو اپنی مٹھی میں دبائے رکھا۔۱۸۹۵ میں جب انگریزوں نے چترال پر قبضہ کیا تو چترال کی ریاست اپنے مضافاتی حدود کو کھو کر صرف چترال کی حدود میں سمٹ کر رہ گئی ۔ان سنگلاخ پہاڑوں کے درمیاں اس قوم کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ۔طلوعِ اسلام سے پہلے یہاں دو قومیں آباد تھیں۔زیریں حصے پر کالاش قوم حکمران تھے جب کہ بالائی  حصے پر کھو قوم آباد تھی ۔یہاں پر طلوعِ اسلام صوفیائے کرام کے قدموں کا مرہونِ منت ہے جوکہ افغانستان سے یہاں تشریف لائے تھے۔بعد ازاں بہت سے وسط ایشیائی حملہ آور یہاں آئے اور اس علاقے کو فتح کرکے یہیں کے ہو کر رہے۔العرض یہ معجون نما قوم مثالی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا حامل ہے۔ بالخصوص مہمان نوازی اور پُر امن ماحول کے لحاظ سے اپنے اردگرد کے قبائل میں یہ قوم اپنی مثال آپ ہے۔مہمان نوازی اس حد تک کہ خود کئی کئی دن تک بھوکے رہتے ہیں لیکن ایک انڈے کو کئی کئی دن مہمان کے لیے سنبھال کر رکھتے ہیں ۔ہنگامی حالت کے تحت مہمان کی خاطر دودھ دینے والی گائے کو بھی ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ خود ننگے فرش پر سوتے ہیں لیکن مہمان کے لیے ریشمی لحاف ہمیشہ تیار رکھتے ہیں ۔چترال امن کا گہوارہ ہے ۔لوگ گھروں کو تالہ لگانا نہیں جانتے۔اکیلی عورت  بھی پورے چترال کا سفر تن تنہا کر سکتی ہے ۔لوگ گھروں کے باہر درختوں کی چھاؤں میں یا مکانات کی چھت پر سکون کی نیند سو سکتے ہیں ۔گندم کےاسٹال اور دوسرے اشیائے خوردنوش کھلے آسمان تلے عرصے تک پڑے رہتے ہیں ۔ اس منفرد خصوصیات کے حامل قوم کی جائے رہائش کا حدود اربعہ خاصا پھیلا ہوا ہے ۔ عرصۂ دراز تک اس کا بالائی حصہ علاحدہ حکمرانوں کے قلمرو میں شامل تھی۔ تقسیمِ ہند کے وقت یہاں کی عوام نے آزادی کی تحریک کا بھر پور ساتھ دیا  چنانچہ ریاستوں کی رائے شماری کے موقع پر سب سے پہلے  یہاں کے راجا سر محمد مظفر الملک نے قائد اعظم کے ہاتھ پر بیعت کرکے ۵۰۰ روپے کا نذرانہ بھی پیش کیا ۔اس کے مقابلے  میں اس سے ملحقہ دیر کے نواب  نے ۱۹۶۲ء تک پاکستان کی ریاست کو تسلیم نہیں کیا۔اسے بھی چترال کی ملیشیا نے گرفتار کرکے راولپنڈی پہنچایا ۔پاکستان بننے کے بعد ریاست چترال کو دو ضلعوں میں تقسیم کرکے ملاکنڈایجنسی کا حصہ قرار دیا گیا ۔لیکن ستم ظریفی کی بات یہ ہوئی،جب ۱۹۶۹ میں  ملاکنڈ ایجنسی  کو ملاکنڈ ڈویژن  کا نام دے کر اس وقت کے صوبہ سرحد(موجودہ خیبر پختونخواہ)میں ضم کردیا  تو چترال کو بھی ایک ضلع بنایا گیا اور ضلع مستوج جو کہ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۹ء تک الگ ضلع کی حیثیت رکھتی تھی  کو ختم کرکے تحصیل قرار دیا گیا جو کہ یہاں کی عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے ۔سابق ضلع مستوج تین تحصیلوں پر مشتمل  ایک پھیلا ہوا علاقہ ہے،صرف سب تحصیل مستوج کی لمبائی برنس سے بروغل تک دوسوپانچ کلو میٹر لمبا ہے،  اس میں وادی ٔ لاسپور ۵۰ کلو میٹر کی ایک الگ وادی  شندور کے ذریعے گلگت بلتستان سے جا ملتی ہے  ۔ وادیٔ موڑکھو برنس سے تریچ تک ۸۰ کلو میٹر کے فاصلے تک پھیلا ہوا ہے ۔اس میں تریچ اور لوٹ اویر علاحدہ وادیاں ہیں ۔تحصیل ِ تورکھو استارو سے کھوت تک ۴۵ کلو میٹر کا علاقہ ہے  ،اس مین ریچ اور مڑہپ کی علاحدہ وادیاں بھی شامل ہے ۔ اتنے وسیع رقبے کے لیے ضلع کا مطالبہ وقت کی اہم ضرورت ہےجو کہ یہاں کی عوام کی دیرینہ   آرزو اور ان کے دل کی آواز ہے ،جس طرح بھٹو صاحب نے ریاست چترال میں عُشر کا خاتمہ کرکے ،لواری ٹنل پر کام کا آغاز کرکے اور بروغل میں برف میں پھنسے ہوئے وخی قوم کے مال مویشیوں کے لیے ہیلی کاپٹر سے چارہ بھیج کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کا دل جیت لیا تھا اور پرویز مشرف صاحب نے لواری ٹنل کے منسوخ شدہ منصوبے کو دوبارہ شروع کیا تھا  اور ان دو حکمرانوں کے لیے چترالی عوام کے دلوں میں جو قدر ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ،اگر کوئی بھی حکمراں یا سیاسی پارٹی سب ڈویژن  مستوج کی عوام کے اس دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرکے مستوج کو ضلع کی حیثیت دی تو یہاں کی عوام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کا حلقہ بگوش غلام ہونگے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے