ہمارے پرائیویٹ کالجز اور ان کا کردار

عصر حاضرہ میں سائنس کی ترقی اور مقابلے کی دوڑ سب کے سامنے ہے لیکن چترال کے باہر سائنس کالجز میں داخلہ اور پیسے کا مسئلہ چترالیوں کے لیے خاصا مشکل ہے انہی حالات کے تناظر میں چترال کے اندر جب پرائیویٹ سائنس کالجز کا قیام عمل میں آیا تو غریب چترالیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی  اور سائنس کے مضامین میں داخلے کا رجحان حد سے بڑ گیا لیکن ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اکثر کا لجز نے ایف ایس سی کے بعد بی ایس سی لیول پر استاد میسر نہ ہونے کی وجہ سے کیمسٹری کی جگہ جغرافیہ کا مضمون پڑھایا۔اسی طرح بہت سارے طلبہ کیمسٹری کے بے غیر بی ایس سی کی ڈگری حاصلی کرتے رہے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے ایم ایس سی، بی ایڈ او ایم ایڈ بھی کرلیے۔چونکہ یہ بات سب پر واضح ہے کہ ہمارے ملک میں لے دے کے ایجوکیشن کے محکمے میں ملازمتوں کے مواقع میسر ہیں اور وہ بھی پبلک سروس کمیشن کی معرفت سے۔ ہوا  یہ کہ جغرافیہ میں بی ایس سی ہولڈر کو پبلک سروس کمیشن نے  یکسر طور پر مسترد کردیا ۔ کیونکی تمام اسکولوں میں سائنس کے  مضامین کی دو آسامیاں ہیں ،کیمسٹری ،بیالوجی  علاحدہ ہے جبکہ فزکس اور ریاضی کے علاحدہ۔۔۔ ہمارے جغرافیہ کے بی ایس سی ہو لڈرز  دونوں سے محروم ہیں ۔لہٰذا وہ تمام طلبہ جنہوں نے اس میدان میں اپنا وقت اور دولت صرف کیا تھا ۔نہ ادھر کے نہ ادھر کے ۔ بقول کسے نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ،نہ ادھر کے رہے نہ ادھر رہے۔ یہ طلبہ وقت کے ہاتھوں دربدری کا شکار ہوکر ٹھوکریں کھاتے ہوئے روتے پھر رہے ہیں ۔یہی ہمارے ان پرائیویٹ کالجز کا کردار رہا ہے جن کے ثمرات ہمارے سامنے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے