پاکستان کے ایک سابق صدر غلام اسحاق خان نے کہا تھا کہ یہ سرکاری ملازمین ایسے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو انہیں بغیر تنخواہ کے بھی رکھ لی جائے تو یہ کہیں نہیں جائیں گے۔بات حقیقت بھی ہے کہ اگر سرکاری ملازمین کے ساتھ جس حد تک سختی کی جائے تو یہ اس کو بھی برداشت کریں گے۔۱۹۷۳ء کے آئین سے پہلے پاکستان کے سول ملازمین کے لیے کوئی خاص قانون نہیں تھا نہ کسی خاص لیڈر کے لیے کسی خاص کوالیفکیشن کی ضرورت تھی ۔موقع کی مناسبت سے ان پڑھ لوگ بھی بڑے بڑے پوسٹوں پر کام کررہے ہوتے تھے۔مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ ریاست چترال کی تقریباً سارے تحصیلدار صاحباں بالکل ان پڑھ تھےجب بٹھو صاحب کی سرکردگی میں ۱۹۷۳ء کا آئین بنا تو سرکاری ملازمین کے لیے باقاعدہ سروس رول مرتب ہوا۔مختلف کیدڑ کے عہدوں کے لیے کوالیفیکشن لازمی قرار دی گئی ۔تمام سرکاری ملازمین کے لیے حسب مراتب تنخواہوں کے اسکیل مقرر ہوئے ۔پروموشن کا طریقۂ کار وضع ہوا۔مخصوص قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر اگلے عہدوں پر ترقی کا طریقۂ کار وضع ہوا۔یہ بات روز روش کی طرح عیان ہے کہ عوام الناس کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے ملک میں نت نئے ادارے قائم ہوئےاور ان اداروں میں ملازمتوں کے جال بچھائے گئے۔فوج،پولیس اور محکمۂ تعلیم میں ملازمتوں کی تعداد میں لا محدود اضافہ کیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۶ء تک جو لاتعداد سول ملازمین جو پنشن ہوئے اس کی وجہ اس دور کے ملازمین کی عمر کی حد تھی۔جو ایک ساتھ بھرتی ہوئے تھے اور ایک ساتھ پنشن پر چلے گئے۔ ۱۹۷۶ء میں تمام سرکاری ملازمین کو یکم جولائی ۱۹۷۱ء سے نئی تنخواہ میں ضم کرکے نوٹیفیکشن جاری کردیا گیا اس مطابق تمام ملازمین کو ایرئیرز ملے ۔انہی پیسوں سے ملازمین نے گاڑیاں خریدیں،مکانات بنائے اور زمینیں خریدی۔الغرض اسی دن سے تمام سرکاری ملازمین کو استحکام حاصل ہوا۔ملازمتوں میں تحفظ کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری ملازمین کی حسب ذیل مراعات اس دور کی یادگار ہیں۔
- پنشن کی رقم کے پچاس فیصد کی یکمشت آدائیگی (مگر پرویز مشرف کے دور میں یہ ریٹ گھٹا کر پینتیس فیصد کردی گئی۔
- پندرہ اسٹیج پورا ہونے پر خود بخود نئے اسکیل میں ترقی۔اس وجہ سے بہت سے سول ملازمین ڈائریکٹر،سیکرٹری اور رجسٹرار کے عہدے تک بھی پہنچے۔(مگر افسوس کی بات یہ ہے مشرف دور میں اس کو تیس اسٹیج کرکے تمام سرکاری ملازمین کا گلہ گھونٹ دیا گیا۔)
- Move over سسٹم کا طریقہ ٔ کار: ایک دفعہ اس اسٹیج پر پہنچنے کے بعد ہر تین سال میں خودبخود” مو اوور” کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔چنانچہ مجھے یاد ہے کہ پی ٹی سی اساتذہ جو کہ اسکیل سات میں بھرتی ہوتے تھے اسکیل سترہ تک پہنچے۔
- اسکیل گریڈ: ہر تین سال میں سنیئر موسٹ سرکاری ملازمین کو اگلے اسٹیج تک ترقیاں دی جاتی تھی ۔اس طریقے سے ایک جونئیر کلرک جو اسکیل ۵ میں بھرتی ہوتھا تین اسٹیج آگے جاکے اسکیل ۸ میں سینئر کلرک ہوتا تھا پھر اسسٹنٹ پھر سپرٹنڈنٹ پھر اسکیل ۱۷ تک پہنچ کے اکاؤنٹ افیسر تک پہنچ سکتا تھا۔
- ہاؤس رینٹ: میڈیکل الاؤنس، UAA یہ سن بٹھو دور کی یاد گار ہیں۔
- اضافی کوالیفیکشن کے خصوصی اینگریمنٹ: وہ تمام سرکاری ملازمین کو میٹرک کوالیفکشن کے کیڈر کام کررہے ہوں ان کو ایف اے کے لیے دو اینگرمنٹ ،بی اے کے لیے ۳ اینگرمنٹاور ایم اے کے لیے پانچ اینگرمنٹ دیئے جاتے تھے مگر نواز شریف صاحب اور پرویز مشرف صاحب نے ان مراعات کو یکسر ختم کردیئے۔
- فیملی پنشن: یہ صرف ضیا ءالحق صاحب کی مہربانی تھی جس کی بدولت ایک خاندان تین پشتون تک کفالت حاصل کرتا ہے مگر ۲۰۰۲ء کے بعد پنشن وغیرہ کا سلسلہ بھی ختم کردیا۔
- پے ریوائس یا مہنگائی الاؤنسز: پاکستان میں مختلف ادوار میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے ہوچکے ہیں مگر جو ریکارڈ پیپلز پارٹی نے قائم کیے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔بینظیر حکومت کے دور میں ۳۵ فیصد اضافہ جبکہ دورِ زرداری میں ۵۰ فیصد تک اضافہ ہوا۔اگر تمام سرکاری ملازمین اور پنشنر حضرات اپنے اپنے سیلری اسٹیمنٹ سامنے رکھ کر انصاف کی نظر سے دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کی پی پی پی کی دور حکومت ہی بہتر رہی ہے۔اس کے علاوہ ملاکنڈ ڈویژن میں سیلاب آنے پر تمام سرکاری ملازمین کے ایڈوانس سیلری بھی معاف کیے گئے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔اس کے علاوہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ،بے روزگار نوجوانوں کے انٹرن شپ جیسے پروگرامون کی مثال کسی اور دور میں نظر نہیں آتی۔مگر افسوس اس بات کی ہوتی ہے کہ ان احسانات کے چکانے کی باری آتی ہے تو مختلف سیاسی حلقوں کے چمچہ گان ان ملازمین کو جو کہ اپنے آپ کو دانشور کہتے ہیں ایسا بہکایا کہ یہ کہیں فرقہ واریت، کہیں علاقائیت اور کہیں قومیت کا شکار ہو گئے اور اپنے اوپر احسان کرنے والوں کی طرف پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھتے اور سیاست کی تندو تیز ہوائیں انہیں خس و خاشاک کی مانند اُ ڑا کر لے گیا۔ انا للہ وا نا الیہ راجعون