ہمارا ٹھیکہ داری نظام

ہمارے ملک میں تعمیرات عامہ کے تمام منصوبے ٹھیکہ داری نظام کے تحت چل رہے ہیں اگر بنظرِ عائر دیکھا جائے تو ملک کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس نظام پر منحصر ہے ۔ بات شروع کرتے ہوئے مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے ۔اپنے چترال میں شخصی حکمرانوں کے زمانے میں ان کے مصاحبین اور درباری حضرات قدم قدم پر ان حکمرانوں کی خوش آمد کے لیے ہر اچھے کام کو ان کی مبارک قدم سے منسوب کرتے تھے۔مثلاً” اگر بارش زیادہ ہو اور اس وجہ سے فصلیں اچھی ہوں تو درباری حضرات عرض کریں گے کہ اعلیٰ حضرت یہ سب کچھ آپ کے مبارک قدم کی وجہ سے ہوا ۔ ایک سال ایسا ہوا زیادہ بارشیں ہوئیں اور سیلاب نے تباہی مچا دی تو ایک تیز طرار شخص نے برجستہ کہا کہ حضور والا یہ سب تیرے مبارک قدم کی بدولت ہے۔”

اسی طرح ہمارے ملک میں بھی جہاں ترقی کا دارو مدار ٹھیکہ داری نظام پر ہے وہاں تباہی اور کرپشن کا بیج بھی اسی ٹھیکہ داری نظام نے بویا ہے۔اس کے پس ِ پردہ دو عوامل کار فرما ہیں۔ اوّل ہماری سیاسی پارٹیاں ہیں، جب وہ اقتدار میں آجاتے ہیں وہ اپنے ساتھ وابستہ ہتھکنڈوں کے لگام کو اس حد تک کھ لا چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جو بھی من مانی کرنا چاہے کر لیتے ہیں ۔دوسرے نمبر پر ہمارا محکمہ ٔ تعمیرات عامہ اور اس کے ماتحت انجینئر صاحباں ہیں انہیں جب بد عنواں قیادت کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے تو وہ ان ٹھیکداروں کی نا جائز اعانت کرکے اپنی جیبوں کو خوب بھر لیتے ہیں اور مملکت ِ خداد اد کے اس قومی خزانے کو کسی بھی حال میں معاف نہیں کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہزاروں بڑ ے بڑے منصوبے بُری طرح ناکام ہوجاتے ہی
چناچہ اکثر و بیشتر دیکھنے میں آیا ہے کہ منصوبے کے لیے بہت بڑی رقم کا ٹینڈر ہوتا ہے لیکن اصل جائے وقوعہ پر اس رقم کا عشر عشیر بھی نہیں پہنچتا ۔یہاں پر اس قسم کےمنصوبوں کی ایک دو مثالیں قارئیں کو یاد دلانا مناسب سمجھتا ہوں ۔بڑے سے بڑے منصوبے کی مثال ہمارا مستوج روڈ ہے اسے مکمل بلیک ٹاپنگ کرکے چارج بھی لیا گیا اور پیسے بھی کھا کے ہضم ہوگئے ہیں ۔یہاں پر صد آفریں اس وزیر اعلیٰ کے لیے ہیں جو اپنے ہاتھوں سے خزانہ تقسیم کررہا ہے ۔ دوسرے نمبر ہر اس ایم این اے کو آفرین ہے کہ اس کے حلقے میں کیا ہو رہا ہے اور اسے کانوں کان خبر نہیں ۔تیسرے نمبر پر اس محکمے کے ذمہ دار عملے پر صد حیف کہ وہ کس لیے تنخواہ لے رہے ہیں اور اپنے خاندان پر وہ تنخواہ خرچ کررہے ہیں ۔چھوٹے سے چھوٹے کام کی مثال یہ ہےکہ ہمارے گاؤ ں آوی کروئے گولوغ میں ایک معمولی کچا پل کی مرمت کے لیے جناب سردار حسین صاحب ایم پی اے نے پانچ لاکھ روپے کا گرانٹ دیا تھا

مگر ٹھیکدار صاحب اسے چار لاکھ روپے میں ہمارے یو سی کے جنرل کاؤنسلر کے ہاتھوں فروخت کردیا۔مقامی کاؤنسلر نے جب متعلقہ محکمہ کے بھتہ خوروں کو بھتہ ادا کردیا تو اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ روپے رہ گئے جب مقامی کاؤنسلر نے اپنے ہاتھ کی صفائی سے کام لیا تو زیادہ سے زیادہ ڈھائی لاکھ کی رقم سے اس پل کی تعمیر ہوئی اور سونے پہ سہاگہ یہ ہے جب یہ تعمیر ہوئی تو کچھ سال بعد ہی مقامی لوگوں نے سائیڈ کی لکڑیاں کھا کے اس بے دست و پا کردیا ہے اور اب کسی بھی وقت یہاں خاکم بدہن کوئی بڑا ایکسڈنٹ ہو سکتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے