چترالی عورت

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

ارشادِ ربانی ہے کہ” میں نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ،مطلب یہ ہے کہ نسلِ انسانی کا وجود ان دونوں کی اشتراک  پر منتج ہے ۔یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔حیات انسانی میں ایک  کے بے غیر دوسرے کا وجود بے معنی ہے ۔ الطاف حسین حالی کہتے ہیں ۔

اے ماؤں ،بہنو،بیٹو دنیا کی زینت تم سے ہے            ملکوں کی بستی ہو تم ہی قوموں کی عزت تم سے ہے

تم گھر کی ہو شہزادیاں شہروں کی ہو آبادیاں           غمگیں دلوں کی شادیاں جینے کی لذت تم سے ہے

مختلف ادوار میں دنیا کے رنگا رنگ سماج میں عورت ذات کے ساتھ متنوع انداز میں سلوک روا رکھا گیا ،کہیں اسے حیوان سے بھی ابتر خیال کیا گیا ،سر عام  بازار میں اشیائے صرف کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوتی رہی ،کہیں جیون ساتھی کے بجائے صرف ایک وقت کی جنسی تسکین کے لیے عمر بھر کا قیدی بنایا گیا ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ایران کے مشہور بادشاہ یروجرد  کی بارہ ہزار بیویاں تھیں۔ اس سے ہر کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ ایک بیوی کے حصے میں اس کے عمر کا کتنا دورانیہ آیا تھا،بقیہ زندگی قیدی کی شکل میں گزاری ہوگی،عرب قبائل نے تو اپنے  ہاتھوں اپنی اولاد کو زندہ دفنا کر بھی ان پر ترس نہیں کھایا ۔ہندو سماج میں ستی کے رسم کے تحت شوہر کی موت پر بیوی کو اس کے ساتھ زندہ جلا یا جاتاتھا چنانچہ مہا راجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے وقت اس کے تین سو بیویوں کو زندہ جلا نے کا دلدوز واقعہ عبرت کی داستان ہے ۔

یورپ کے کلیساؤں نے تو آزادی کا نام دے کر سر عام عریان کر کے عورت کی عصمت لوٹی ۔ان سب کے مقابلے میں اسلام عورت کو جو مقام دیا ہے وہ دنیا کی کوئی سماج اسے نہیں دے سکی ۔

حرمت کا حصار اس کی تحفظ کے لیے اس کے گرد ایک باڑ ہے ،ماں کے روپ میں وہ دنیائے عزت و ناموس کا شہنشاہ ہے ۔اس کی طرف اُف کہنے کی کسی کو مجال نہیں اس کے اشارے پر مال و متاعِ بیوی تک قربان کرنے کا حکم ہے ۔ سرورؐ کونین نے اپنی حیات طیبہ میں عورتوں کے ساتھ حسن ِ سلوک کے جو عملی نمونے پیش کیے  اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی ۔اپنی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ کے لیے آپ نے اپنی چادر بچھائی ۔عرب کے مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی جب قیدی بن کر آپ کے سامنے آئی تو آپ نے ان کے بیٹھنے کے لیے اپناعمامہ زمین پر بچھادیا ۔چنانچہ اسلام کے چند نامور ماؤں کے مرتبے پر پوری دنیا رشک کرتی ہے ۔حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ ،حضرت عائشہؓ اور سیدۃ النساءؓ خاتونِ جنت کی ذات اپنی مثال آپ ہیں ۔

چترالی عورت اسلام کی ان  مایہ ناز ماؤں کا پیرو کار،اسلامی احیا ء کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔یہاں چترالی عورت کی ذات میں   موجود خصوصیات کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے ۔ جو کہ یہ ہیں ۔

چترالی عورت شرم و حیات کا مجسمہ ہےوہ ہر محفل میں اپنی عزت کی  ماسداری کرنا خوب جانتی ہے ۔سر کو دوپٹے سے ڈھانپ کے رکھنا اس کی زینت کی نشانی ہے ۔اپنو ں اور بیگانوں سے ان کے ملنے کا انداز بالکل ہی نرالا ہے۔عرب قومیں جو کہ غیرت کے نام پر اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کرتی تھیں۔اس معاشرے کی عورت بھی طوائف بن کے بازار کی زینت بنی ہے ۔چنانچہ زمانہ ٔ جاہلیت کے مشہور طوائف  سمیہ ہوگزری  ہے۔ جس کے بطن سے ابن سمیہ پیدا ہوئیں ۔جو اسلام لانے کے بعد مشہور مدبرہ اور مجاہدہ ثابت ہوئیں۔مگر ان کا بیٹا ابن زیاد کربلا میں نواسہ ٔ رسول ؐ  کی شہادت کا ناقابل فراموش سانحہ برپا کرکے دامن اسلام کو قیامت تک داغدار کردیا ۔ دنیا ہر قوم کی عورت بازارِ حسن کی زینت بنی ہے مگر چترالی عورت اس مذموم فعل کا نام تک نہیں سنا ہے ۔

ناچ گانا جو کہ دنیا کی ہر قوم کی معاش کا ذریعہ ہے مگر چترال کی عورت نے کھبی اس طرح کے لعولعب کا شکار نہیں ہوئی۔ان تمام باتوں کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ چترالی عورت کوئی قیدی ہے  اور حسن و عشق سے نابلد کوئی مخلوق ہے۔حسن و عشق کی داستانیں  اور گانے وغیرہ چترالی ثقافت میں بھی  آپ کو نظر آئیں گے۔عاشقوں نے اپنے معشوقوں کے لیے قسم قسم کے گانے گائے ۔ان کی عشق و محبت کی لازوال داستانیں موجود ہیں ۔لیکن کسی مقام میں بھی اخلاق و تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا ہے ۔چترالی عاشق کبھی بھی اپنے معشوق کو عریان دیکھنا پسند نہیں کرے گا اور نہ وہ ان کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کو اپنے لیے فخر سمجھے گا۔اکثر عاشقوں کے معشوقوں کے نام تک کسی کو پتہ نہیں ۔اس سے چترالی کلچر میں عورت کے تقدس  کی عظمت کا پتہ چلتا ہے ۔

چترال کا مشہور شاعر محمد سیار (جن کا فارسی مشہور دیوان ہے ) اپنے آبائی گاؤں شوگرام کے پل عبور کرکے  اپنے معشوق کے گاؤں  ریشن جارہے تھے یکایک اس پل میں سامنے سے ان کا محبوب بھی آتی ہوئی ان کو نظر آیا جب قریب پہنچ گئی تو با با سیار ان کے دوپٹے کے سروں کو چھوتے ہوئے دریا میں چھلانگ لگا دی اور تیرتے ہوئے دوسری جانب نکل گیا ۔بعد میں دریافت کرنے پر اس نے بتایا اگر میں پل پر معشوق کے پاس سے گزرتا تو  میرے جسم کا کوئی حصہ اس سے چھو سکتا تھا  اور واپس آتا تو میری پیٹھ میری محبوب کی طرف  ہوتا ۔اس طرح ہونا میری محبت کی توہین ہوتی۔ اس واقعے سے   ایک چترالی  شاعر کے  کردار کا پتہ چلتا ہے۔

دنیا کی تمام عورتوں کے مقابلے میں چترالی عورت حد سے زیادہ مشقتیں سہنے کا عادی ہے ۔چترالی عورت لوہے کی سلاخ ہے اور اس کے مقابلے میں دنیا کی ہر عورت موم کی گڑیا ہے۔ کبھی شکایت زبان پہ نہیں لاتی اور اپنے کام کاج میں مصروف رہتی ہے ۔بہت زیادہ مصروف گھرانوں کی مائیں اکثر خود کھانا کھانا بھول جاتی ہیں  اور اکثرو بیشتر روکھی سوکھی کھا کر بسر اوقات کرتی ہیں۔ چترالی مرد امورِ خانہ داری میں عورت کے کام میں ہاتھ لگانا جانتی ہی نہیں ہے ۔ اس کے  برعکس چترالی عورت مردانہ کاموں میں بھی مرد کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہے ۔

چترالی عورت اپنے شوہر کا حد سے زیادہ فرمانبردار ہوتی ہے۔اس کے ایک اشارے پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔چترالی روایت میں عورت کبھی بھی اپنے شوہر کو نام لے کے مخاطب نہیں کرتی۔

وفاداری اور امانت داری چترالی عورت کی امتیازی وصف ہے ۔کئی کئی سالوں تک شوہر کی عدم موجودگی کے باوجود صبرو سکون کے ساتھ اس کا انتظار کرتی ہے ۔کئی خواتین صرف ایک اولاد کی خاطر جوانی کے ایام ہی سے بیوگی پر صبرو قناعت سے بسر کرتی ہیں ۔چترالی عورت ممکنہ حد تک پردے کا پابند ہے۔بزرگ مائیں تک اس دور میں بھی سودا سلف لینے بازار نہیں گئیں۔۔ مگر بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ثقافتی یلغار  کی سونامی سب کچھ بہا کر لے گیا ہے۔اس طوفان کے سامنے چترالی عورت کے قدم بھی ڈگمگانے لگی ہیں ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی پر مادھوری ،قطرنیہ ،کرشمہ اور میڈی گابا کی نقلیں اتارتے ہوئے ہماری بہو بیٹیوں کے سر سے دوپٹہ گرنا شروع ہوگئے ہیں۔جنہیں دیکھتے ہوئے روایتی اقدار کی مقلدین خون کے آنسو روتے ہیں ۔بہ امر مجبوری یہ کہنا پڑتا ہے۔

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا        کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

Print Friendly, PDF & Email