کامیاب لوگ!

انعام الرحمان پشکلاواتی صاحب جامعہ پشاور میں شعبۂِ صحافت کے سینئر لیکچرر ہیں ۔ ان کاشمار صوبے کے قابل ترین اساتذہ میں ہوتا ہے ۔ ہر سال سینکڑوں صحافی ان سے تربیت لینے کے بعد فیلڈ میں کام کرکے ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں ۔ کئی مشہور صحافی ان کے طالب علم رہ چکے ہیں ۔ انھوں نے اعلیٰ تعلیم جرمنی  سے حاصل کی ہے اور ان کی لکھی ہوئی کتابیں صحافت کے طالب علموں کے علاوہ سی ایس ایس اور پی ایم ایس کی تیاری کے سلسلے میں  بہت زیادہ کارآمد ہیں ۔ یہ ان کی کامیابی کا ایک پہلو ہے۔ ان کی کامیابی کا اصل پہلو  ان  کی سادگی ہے۔ انعام صاحب حد درجے کے سیدھے سادھے اور شاید اسی وجہ سے، ہنستے مسکراتے انسان ہیں  وہ گھر سے یونیورسٹی سائیکل پر سوار ہوکر آتے جاتے ہیں ۔ سر پر پشاوری ٹوپی رکھتے ہیں جو کہ اکثر ٹیڑھی ہوتی ہے۔ چادر اوڑھتے ہیں ۔ اپنا بیگ سیٹ کے پیچھے باندھ لیتے ہیں اور پیڈل گھماتے ہوئے یونیورسٹی کی طرف چل پڑتے ہیں ۔ ایک بار انعام صاحب سے جب میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو ان کا کہنا تھاکہ سادگی میں حقیقی خوشی ہے اور دکھاوا کرنے سے انسان دوسرے کو ہی نہیں بلکہ خود کو بھی دھوکہ دیتا ہے۔ ان کی اس بات سے متاثر ہوکر میں نے ایک اور سوال ان سے پوچھا کہ "سر! آپ کے تجربے کا نچوڑ کامیابی کے حوالے سے کیا ہے؟ یعنی کامیابی کا راز آپ کے نزدیک کیا ہے؟” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انعام سر نے وہ جواب دیا کہ جس سے میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے کہا کہ "کامیابی کا راز بیگ ہے”. اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں جو انسان اپنے ساتھ بیگ رکھتا ہے وہ کامیاب ضرور ہوتا ہے ۔ اس نے مثال یوں دی کہ جب بیگ ساتھ ہوتا ہے تو انسان اپنے لیب ٹاپ سے لیکر ناخن تراش تک ساتھ رکھتا ہے، کپڑے بھی ساتھ ہوتے ہیں یعنی بندہ جب بھی اور جدھر بھی جانا چاہے جا سکتا ہے، ڈائری ساتھ ہوتی ہے اور آتے جاتے ہوئے ملنے والے معلومات کو نوٹ کیا جا سکتا ہے اور یہ عادات انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہیں۔ ان کی اس بات میں وزن تھا۔ہماری وابستگی روزانہ نئی چیزوں سے ہوتی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس چیز کے حوالے سے ملنے والے معلومات کو اپنے ساتھ محفوظ کریں مگر صرف اس وجہ سے اسے نوٹ نہیں کر پاتے کہ ہمارے پاس ڈائری نہیں ہوتی۔ یہ ایک شخصیت ہیں جو سادگی اور محنت پر یقین رکھتی ہے ۔ اب میں آپ کو ایک اور ایسے ہی انسان سے ملواتا ہوں جو سادگی اور محنت کے ساتھ ساتھ خدمت پر یقین رکھتا ہے۔ ان کے ساتھ میری ملاقات کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ میں کچھ روز قبل رات 10 بجے کے قریب حیات آباد سے ارباب روڈ جارہا تھا ۔  ایک ٹیکسی والے کو روکا اور  ارباب روڈ جانے کو کہا۔ انہوں نے فوراً حامی بھر لی اور میں ٹیکسی میں سوار ہوگیا۔ یہ بظاہر سفید ریش تھے مگر ان کے چہرے پر جوانی کے آثار ابھی بھی زندہ تھے۔ بظاہر ٹیکسی ڈرائیور تھے مگر ان کی آنکھوں سے پھوٹتی اُمید کی کرن بتا رہی تھی کہ ان کی شخصیت کے کئی اور پہلو بھی ہوسکتے ہیں ۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو جاننے کی خاطر ان سے سیاسی بحث  شروع کی ۔ انھوں نے پاکستان افیرز کے علاوہ عالمی سیاست کے حوالے سے بھی مدلل گفتگو کی ۔ پھر میرا شک یقین میں بدل گیا اور میں نے ان سے استفسار کیا کہ جناب آپ کا پروفیشن کیا ہے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے داڑھی پر ہاتھ پھیری اور کہنے لگے کہ بس کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہوں ۔ میں نے  اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں  صحت شعبے سے منسلک ہوں  یعنی ایک بار پھر انھوں نے اپنے کام کو چھپانے کی کوشش کی۔ مگر میں نے ان سے تیسری مرتبہ یہی سوال کیا کہ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں آپ کس پوزیشن پر کام کرتے ہیں ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ بندے نے ٹھان لی ہے کہ ان کے حوالے سے جان کر ہی دم لے گا تو مجبوراً اس نے جواب دیا کہ "بیٹا میں ڈاکٹر ہوں ". یہ سوال سن کر مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ ان کا تعلق شبقدر سے ہے۔ یہ کان، ناک اور گلے کے سینئر ڈاکٹر ہیں ۔ ان کا نام محمد اسرار ہے اور یہ بطورِ اسپیشلسٹ شعبہِ صحت میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ان دنوں یہ چھٹیوں پر ہیں اور فارغ وقت میں ٹیکسی چلا کر رزقِ حلال کماتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی کہانی سنائی، میری منزل آگئی اور میری گزارش کے بعد انہوں اپنا کارڈ مجھے دے دیا اور مسکراتے ہوئے واپس چلے گئے ۔ ڈاکٹر اسرار سے ملنے کے بعد مجھے اس سوال کا جواب مل گیا جس کو جانے بے غیر لوگ عمر بھر پریشان رہتے ہیں۔ میں جان گیا کہ کامیابی خوشی کو کہتے ہیں اور خوشی کا راز سادگی اور محنت ہے۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ کامیاب لوگ وہ ہیں جو کہ حقیقی زندگی گزارتے ہیں، جن کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا الغرض پوری زندگی دکھاوے سے پاک اور حقیقت سے بھر پور ہوتی ہے۔ یہی دراصل کامیاب لوگ ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email