زرعی قرضوں کی معافی کا معاملہ

بلاشبہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے2015-16کے مشکل حالات میں دو مرتبہ چترال کا دورہ کر کے نہ صرف تاریخ رقم کی بلکہ انسانیت اور شرافت کی بھی لاج رکھی۔مختلف طبقۂ فکر کے مطابق یہ دورے میڈیا کی کوششوں کا نتیجہ تھے۔ بقول شخصے ان دوروں کا کریڈِٹ ممبر قومی اسمبلی شہزادہ افتخار کو جاتا ہے۔ پاکستان کے معروف کالم نگار جاوید چودھری کے نزدیک چترال پر ان تمام مہربانیوں کی وجہ عمران خان کا ڈنڈہ ہے ۔ میں اس بحث سے گریز کروں گا کہ ان تمام کرم نوازیوں کی اصل وجہ کیا تھی مگر ایک حقیقت مسّلم ہے کہ یہ دورے ہر لحاظ سے چترال کیلئے نہایت ہی اہمیت کے حامل تھے۔ ان دوروں میں میاں صاحب نے اہم اعلانات کیے ۔ان اعلانات میں سے ایک اہم اعلان زرعی قرضوں کی معافی کابھی تھا۔اس اعلان سے آفت زدہ چترالی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ان کی پاکستان اور حکومتِ پاکستان کے ساتھ محبت میں مزید اضافہ ہوگیا اور لوگ میاں صاحب کے ’’فین‘‘ بننے لگے۔ مگر یہ خوشی اس وقت عارضی ثابت ہوئی جب زرعی بینک نے قرضوں کی ادائیگی کی’’ نوٹیفیکیشن‘‘ جاری کی۔عوام میں انتہاء درجے کی بے چینی پھیل گئی۔ ان کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور ہر ایک کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ یہ بات تشویش ناک تھی۔ عوام کو لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ان کو وزیراعظم کا اعلان محض ایک دھوکہ نظر آنے لگا۔ یہ وہی لوگ تھے جو سیلاب اور زلزلے کی وجہ سے تباہ حالی کا شکار تھے۔ ان کی تیار فصلیں سیلاب کے بے رحم موجوں کی نذر ہو چکی تھیں۔ 8.1کے زلزلے نے ان سے ان کے گھربار چھین لیا تھا۔ یہ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ان کے پاس رہنے کیلئے مکان نہیں تھا، پہنے کے لیے کپڑے نہیں تھے اور حد یہ کہ کھانے کے لیے خوراک کی بھی قلّت تھی۔ اس مشکل گھڑی میں ان کو زرعی قرضوں کی ادائیگی کا حکم ملا تھا۔یہ وہی قرضے تھے جنھیں حکومتِ وقت نے معاف کیا تھا۔ یہ معافی چترال کو آفت زدہ قرار دینے کے بعد دی گئی تھی۔ پوری دنیا سے چترال کی مدد کی اپیلیں کی جا رہی تھیں۔ پوری قوم مشکل کی اس گھڑی میں چترالی عوام کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔دنیا جہاں سے چترال کیلئے امدادی سامان آرہے تھے۔عالمی تنظیمیں چترال کو دوبارہ ’’بحال‘‘ کرنے کیلئے جتن کر رہی تھیں۔ سڑکوں کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔ کئی پل دریا برد ہو چکے تھے۔لوگ انتہائی کرب کی زندگی گزار رہے تھے اور اس پریشانی کے عالم میں بھی انھیں زرعی بینک آف پاکستان کی جانب سے لیٹر بھیجے گئے تھے جن میں واضح لکھا گیا تھا کہ ایک مہینے کے اندر اندر زرعی قرضوں کی آدائیگی کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ ساتھ میں یہ بھی لکھا تھا کہ خلاف ورزی کی صورت میں سخت کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ چترال کی عوام کو بے وقوف بنایا گیا تھا۔ ان کے احساسات کے ساتھ کھیل کھلا گیا تھا۔ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا گیا تھا اور ان کے ساتھ جھوٹی سیاست کی گئی تھی۔ دلبرداشتہ عوام نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ حکومت کے خلاف جلوس نکلے۔ کسانوں نے سڑکیں بندکر کے احتجاج ریکارڈ کرائے۔ نوجوانوں نے ٹائیر جلائے۔ بچوں نے بھی اپنا حق مانگا مگر حکومت مسئلے کے حل کی یقین دہانی کرتی ر ہی اور المیہ یہ ہے کہ وہ مسئلہ ابھی تک حل نہ ہو سکا۔ میاں صاحب کا وعدہ ابھی تک وفا نہ ہوا، پی ٹی آئی حکومت نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا اور عوام بے بسی کا رونا روتی رہ گئی۔ مجھے اس مسئلے کا حل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا البتہ ہم شہزادہ افتخار سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے بھی فوری اقدامات کرے ورنہ پہلے سے ہی چترالی عوام کاحکمرانوں پر سےبھروسہ اُٹھ چکا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

تبصرہ

  1. ازلان

    یہ خان صاحب کا کمال ہے ۔۔وہ روکاوٹ بن گئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے