نا اُمیدی کا ڈر اور آج کا نوجوان

یہ ایک ہفتے پہلے کا واقعہ ہے۔کوئی پونے تین بجے کے قریب میں اسلامیہ کالج گیٹ سے وین پکڑی اور صدر کی طرف روانہ ہوا۔ اس نیلے رنگ کے وین میں کل چودہ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔اس وقت گاڑی میں میرے علاوہ بارہ( ۱۲) اور لوگ سوار تھے۔فرنٹ سیٹ میں ایک بزرگ اپنی اہلیہ کے ساتھ گفتگو میں مشغول تھے دوسری سیٹ میں تین لوگ سوار تھے، ان میں سے ایک مغذور تھاجو کھڑکی کے پاس ہی بیٹھے تھے اور ایک اتنا تندرست کہ مجھے آگے دیکھنے کے لیے اس کے اوپر سے جھانکنا پڑتا تھا۔پیچھے والی سیٹ میں چار افراد سوار تھے۔ میرے دائیں جانب ایک مولانا صاحب تشریف فرما تھے جبکہ بائیں طرف کنڈکٹر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کنڈیکٹر کی خوبصورتی اور تندرستی کودیکھ کر میں حیران تھا۔ یہ بھی کسی ’چائے والے‘ سے کم نہیں لگ رہا تھا۔اس کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی شادی کی تقریب میں جا رہا ہو۔ اپنے انداز سے پڑھا لکھا بھی نظر آرہا تھا۔کسی سے کرائے کا تقاضا بھی نہیں کر رہا تھا۔کوئی دیتا تو خاموشی سے جیب میں رکھ دیتا۔ وہ دوسرے کنڈکٹروں کی طرح سواریو ں کو آواز دے کے بلاتا بھی نہیں تھا۔ مجھے اس کنڈکٹر میں دلچسپی پیدا ہوئی۔اب میں اس کی طرف اور متوجہ ہوا۔ہاتھو ں کی نرمی اور صفائی بھی اس کو دوسرے کنڈکٹروں سے ممتاز کرتا تھا۔سارے سفر کے دوران ان کے چہرے میں ایک خا ص قسم کی حفیف مسکراہٹ بکھری رہی ۔لیکن غور سے دیکھنے پر ان کے دل کا درد بھی چہرے سے عیاں ہوتا تھا۔شاید کسی مایوسی کو مسکراہٹ میں چھپانے کی وہ ناکام کوشش کر رہا تھا۔یہ مایوسی ان کی آنکھوں میں واضح نظر آرہی تھی۔مجھ سے رہا نہ گیا اور ان سے مخاطب ہونے کے لیے اپنا گلا صاف کیا۔ٹریفک کے شور کے باوجود اس نے میری گفتگو کی خواہش کو بھانپ لیا اور پشتو میں مجھ سے کچھ پوچھا۔ پشتو بدقسمتی سے نہیں آتی اس لیے میں نے فوراٌ اردو میں ان کو بتایا کہ مجھے پشتو تو نہیں آتی لیکن میں آپ سے اردو میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ وہ ایسے مسکرائے جیسے ان کو پہلے سے ہی معلوم ہو کہ میں ان سے کیا پوچھ رہا ہوں۔ مخصوص انداز میں ’پوچو یار‘ کہا تو میں نے ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ واقعی میں کنڈکٹر ہیں؟ میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے زور سے قہقہہ لگا۔ ان کی ہنسی رکی تو میں دوبارہ ان سے مخاطب ہوا کہ کیا میرا سوال واقعی میں عجیب ہے۔ اس نے کہا کہ’ ’تمارا ساوال صیی اے ، بس مجے ویسے ای اسی ایا‘‘۔ اس کی اردو ٹھیک نہیں تھی مگرپھر بھی مجھے یقین تھا کہ وہ تعلیم یافتہ تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے انداز سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ایجوکیٹڈ ہیں، پھر بھی آپ کنڈکٹری کیوں کررہے ہیں؟ اس سوال سے اس کے چہرے میں اداسی کے آثارنمایاں ہوئے۔ اس نے ایک لمبی آہ بھر ی ، کھڑکی سے باہر دیکھا اور کہا۔ ’’تمارے سوال کا میرے پاس ایک ای جواب اے، میں بے روزگاری سے تنگ آگیا اوں‘‘۔ تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد دوبارہ بولے ’’ اسی لئے ماموں کے سات کنڈکٹری کر را اون‘‘۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دیر خاموش ہو گئے اور پھر سواریوں کے ساتھ مصروف ہو گئے۔ میں نے ان سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے موقع ہی نہیں دیا۔ رش کے باعث گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ میں اگرچہ درمیان والی سیٹ میں بیٹھا تھا لیکن باآسانی باہر دیکھ سکتا تھا۔ روڈ کے دائین جانب ٹریفک وارڈین غصے سے کسی نامعلوم ڈرائیور سے مخاطب تھے۔ ان کی آواز کرختدار تھی۔ ان کے کچھ الفاظ جن کو میں سن سکا، یہ تھے۔’’میں تمھیں کیوں سلام کروں بولو؟ ہم بد اخلاق لوگوں کو سلام نہیں کرتے‘‘۔ اس واقعے نے مجھے ہنسنے پر مجبور کیا کیونکہ مجھے اس کا پس منظر معلوم تھا۔ حکومتِ انصاف نے یہ حکم صادر کیا تھا کہ ٹریفک وارڈین پہلے لوگوں کو سلام کرینگے اور پھر کلام اور ہو سکتا ہے کہ کوئی شہری اسی بات کو لیکر ٹریفک وارڈین کو پریشان کر رہاتھا۔ اسی اثناء کنڈیکٹر کو فارغ پاکرمیں دوبارہ ان سے مخاطب ہوا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اتنی جلدی ہارکیوں مانی۔ کہنے لگے کہ یہ پاکستان ہے یہاں غریبوں کو کچھ نہیں ملتا، اسی لیے میں ماسٹر کرنے کے بعد بھی کنڈکٹری کر رہا ہوں۔ اس جواب نے مجھے پریشان کیا۔ میں نے فورأاس سے ان کا سبجیکٹ اورایم -اے میں حاصل کردہ نمبرات کے حوالے سے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ اس کے 71فی صد نمبرہیں اور اس نے کمپیوٹرسائنس میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔یہ جواب سننے کے بعد میری پریشانی میں مزید اضافہ ہوا۔ میں حیران تھا کہ ایک بندہ جس نے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا تھا اور اچھے نمبروں سے کیا تھا لیکن مایوسی اور بے یقینی نے اسے ایک معمولی کنڈیکٹر بنا دیا تھا۔اس کی ساری اُمیدیں دم توڑ چکی تھیں۔ اس کو کہیں سے بھی روشنی نظر نہیں آرہی تھی۔ میں نے حیرت کے عالم میں اس سے ایک اور سوال پوچھا کہ آپ نوکری کی کوشش کیوں نہیں کرتے ، سرکاری نوکری اگرنہیں بھی ملتی تو نجی شعبے میں مواقع زیادہ ہیں؟ میرے اس سوال کا جواب اس نے یوں دیا کہ نجی شعبے میں تنخواہ 10ہزار سے زیادہ نہیں ملتی جبکہ سرکاری شعبے میں آسامیاں ہی خالی نہیں ہیں۔ میں نے فورأ ان سے کہا کہ 3دن پہلے کے اخبارات میں ہی صوبائی حکومت کی طرف سے 1000آسامیوں کا اعلان کیا گیا ہے جو صرف کمپیوٹر آپریٹر اور کمپیوٹر لیب اسسٹنٹ کے لیے مخصوص ہیں۔ ’’مڑا یار او ام غریبوں کو کون دیتا اے او تو سارے صاب لوگوں کے بچے لے لینگے‘‘۔ اتنے کہنے کے بعد دوبارہ سواریوں میں مصروف ہوگئے اور میری منزل آگئی تھی لہٰذا گاڑی سے اتر کر سوچنے لگا۔ کہ آج کے نوجوان مایوسی کے دلدل میں پھنسے جارہے ہیں۔ محنت اور کوشش کو بیکار جانا ہے۔ ہم میں خود اعتمادی کا فقدان ہے۔ہمیں یہ لگنے لگا ہے کہ محنت سے کچھ نہیں ملتا۔ ہمیں شاید یہ معلوم نہیں کہ مواقع تلاش نہیں بلکہ تخلیق کیے جاتے ہیں۔ شایدہمیں کسی بڑے معجزے کا انتظار ہے۔ہمیں شاید جادو کی چھڑی ملنے کی اُمید ہے یا آلہ دین کا وہ چراغ جو منٹوں میں ہماری کایا پلٹ دے۔ اس واقعے کو ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا ہے مگر میرے دماغ میں اب بھی اس مایوس نوجوان کا چہرہ منڈلا رہا ہے۔ واقعی ڈیل کارنیگی نے خوب کہا ہے کہ ’’ہمارا سب سے بڑا دشمن ڈرہے‘‘۔ نہ ملنے کا ڈر، غلط کرنے کا ڈراور نا اُمیدی کا ڈر۔ جب تک ہم اس غیر ضروری ڈر کا سامنا نہیں کریں گے ہماری بھاری ڈگریاں بھی کار آمد ثابت نہیں ہوں گی، ہم بھی کنڈکٹر بنیں گے یا پھر کسی گلے کے چھولے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے