قوم کا حقیقی ہیرو سرکاری اعزاز سے محروم

یہ آج سے کم و بیش 10 سال کا واقعہ ہے۔ میرے ایک ہم جماعت کو رشتے دار کی شادی میں شرکت کی غرض سے سکول سے چھٹی چاہئے تھی ۔ اس حوالے سے انھوں نے ہیڈ ماسٹر صاحب سے درخواست بھی کی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب (جن کا حال ہی میں ہمارے سکول میں تبادلہ ہوا تھا) کاغذ ہاتھ میں تھامے کمرہِ جماعت میں داخل ہوئے ۔ ہم نے یک زبان ہو کر ہیڈ ماسٹر صاحب کو سلام کیا اور ادب سے کھڑے ہو گئے ۔ انھوں نے ہمیں بیٹھنے کو کہا اور تھوڑی دیر بعد پوری کلاس سے نرم لہجے میں مخاطب ہوکر کہنے لگے ۔ "آپ میں سے کسی ایک طالب علم کو رشتے دار کی شادی میں شرکت کرنے کے لئے سکول سے چھٹی در کار ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ غیر ضروری سرگرمیوں کو پڑھائی پر فوقیت دیتے ہیں ۔ ایک طالب علم کے لئے شادی میں شرکت کرنے سے زیادہ خوشی سکول آنے پر ہونی چاہئے ". کچھ لمحے کے لئے خاموش رہنے کے بعد انھوں نے اپنی گفتگو جاری رکھی۔ "میں آج آپ کو اپنے ایک فرمانبردار طالب علم کا واقعہ سناتا ہوں جس نے میرے منع کرنے پر خود کی شادی میں شرکت نہیں کی اور شادی کے دن سکول آئے۔ (ہم سب حیرانگی سے ہیڈ ماسٹر صاحب کا منہ تکنے لگے).

میں علاقہِ یارخون کے ایک سرکاری سکول میں بطورِ استاد ڈیوٹی پر مامور تھا کہ ایک طالب علم نے مجھے ایک درخواست پیش کی ۔ درخواست گزار کی تحریر کے مطابق 2 دن بعد ان کی شادی تھی اور انھیں کچھ دنوں کے لئے سکول سے چھٹی چاہئے تھی ۔ میں نے ان کی درخواست منظور نہیں کی اور انھیں سکول باقاعدگی سے آنے کو کہا۔ کیونکہ ٹھیک شادی کے دن ان کا سالانہ امتحان شروع ہو رہا تھا اور دوسرا یہ کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک طالب علم کے لئے تعلیم سے بڑھ کر اور کوئی بھی کام ضروری نہیں ہونا چاہئے۔ ( کاغذ واسکٹ کی جیب میں رکھنے کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے اپنی گفتگو جاری رکھی). میں آج بھی اس طالب علم پر فخر کرتا ہوں ۔ کیونکہ اس نے فی الفور میری بات مان لی اور ٹھیک اپنی شادی کے دن سکول آئے۔ (ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہی). میں نے اسے شاباش دی اور وہ کمرہِ امتحان میں بیٹھ گئے۔ ابھی پیپر ختم ہونے میں ایک گھنٹہ باقی تھا کہ سکول کے ساتھ والی سڑک سے باراتیوں کی گاڑیاں گزرنے لگیں ۔مجھے سکول کے چوکیدار نے اطلاع دی کہ یہ ہمارے ہی طالب علم کی دلہن کی بارات تھی جو اس وقت امتحانی ہال میں موجود تھا۔ پیپر ختم ہوا تو طالب علم حسبِ معمول اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا جہاں اس کی دلہن اور شادی میں شریک رشتہ دار ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ گھر پہنچنے کے بعد سکول کی وردی میں ملبوس طالب علم اور ان کی دلہن کا نکاح پڑھایا گیا اور یوں ایک تاریخ رقم ہوگئ۔ (کچھ دیر خاموش ہونے کے بعد دوبارہ کہنے لگے). مجھے ایسے طالب علم چاہئے جو پڑھائی پر کسی چیز کو فوقیت نہ دیں ۔ میں اس طرح کی کوئی درخواست منظور نہیں کرتا جو کسی طالب علم اور اس کی پڑھائی کے درمیان حائل ہو "۔

یہ واقعہ سننے کے بعد ہم ہیڈ ماسٹر صاحب کی فرض شناسی اور اس طالب علم کی فرمانبرداری کے فین بن گئے ۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا با اصول اور ذمہ دار شخص نہیں دیکھا تھا ۔ یہ کوئی بیوروکریٹ نہیں تھا ۔ ڈاکٹر یا انجینئر بھی نہیں تھا ۔ یہ ایک سرکاری مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے ۔ صوم و صلواۃ کے پابند تھے۔ لہجے میں نرمی تھی۔ من میں امن تھا۔ غریبوں کے لئے دردِ دل رکھتا تھا اور طالب علم کی بہترین تربیت کو اپنا فریضہ سمجھتا تھا ۔ دل میں سچائی تھی اور ایمان میں پختگی تھی ۔ اسی وجہ سے وہ ضلع بھر کے لوگوں میں "پختہ استاد” کے نام سے مشہور ہوگئے ۔ جی ہاں! یہ کوئی اور نہیں بلکہ چوئنج مستوج سے تعلق رکھنے والے محترم استاد نادر عزیز ہیں ۔ یہ اپنے نام کے جیسے نادر ہیں ۔ اس قسم کے اصول پسند اور ایماندار لوگ اب ہمارے ملک میں شاز و نادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ یہ واقعی میں لوگوں کو عزیز تھے۔ کیونکہ جس سکول میں ان کا تبادلہ ہوتا تھا یہ اس سکول کا مقدر ہی بدل دیتا تھا۔ یہ ایمانداری کا نمونہ تھا۔ امتحانی ہال میں ان کی امد سے نقل کرنے والے افراد کی روح تک کانپ اٹھتی تھی۔ یہ ایک بہترین استاد ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ تعریف منتظم بھی تھے ۔

یہ اب اپنے عہدے سے ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں ۔ 37 سال تک قوم کی خدمت دل و جان سے کرنے والا پختہ استاد اب باقی زندگی عبادات اور کتابیں پڑھنے میں گزار رہے ہیں ۔ سال 2015 کے اوائل میں انھوں نے ریٹائرمنٹ لی ۔ کئ نجی اداروں نے پختہ استاد اور ان کی خدمات کو سراہا۔ لکھنے والوں نے ان پر خوب لکھا۔ شاعر حضرات نے ان کے قصیدے پڑھے ۔ علاقہ کے عمائدین نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ بچوں نے انھیں پھول پیش کئے۔ بڑوں نے انھیں داد دی، العرض ہر طبقہِ فکر کے لوگوں نے ان کے کردار کو دل و جان سے تسلیم کیا ۔ مگر زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے ۔ ہمارے سرکاری اداروں کو سانپ سونگھ گیا ۔ حکومت نے انھیں شاباش تک نہیں کہا۔ تبدیلی کی دعویدار حکومت نے قومی ہیرو کا حال تک نہیں پوچھا۔ ان کو کوئی سرکاری اعزاز نہیں دیا گیا۔ ان کی ایمانداری اور فرض شناسی کے چرچے ہونے کے باوجود کسی سیاسی جماعت یا رہنما نے ان کے کندھے پر شاباش کی تھپکی نہیں دی ۔ صوبائی حکومت سالانہ سرکاری سکول کے اساتذہ کو انعامات سے نوازتی ہے۔ مگر پختہ استاد کا دروازہ اس حوالے سے آج تک کسی نے نہیں کھٹکھٹایا ۔ شاید اس ملک میں بے ایمانی ایمانداری پر غالب آئی ہے ۔ شاید ہمارے حکمران فرض شناس لوگوں کو پسند نہیں فرماتے۔ یا پھر شاید ہمارے معاشرے سے احساس اور انصاف کا جنازہ نکلتا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا مردِ مومن، قائد کا فرمانبردار شہری اور قوم کا حقیقی ہیرو حکومتِ وقت کی بے حسی کے سبب آج بھی اپنے حق اور اعزاز، دونوں سے محروم ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے