دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر

پاکستان امریکہ تعلقات اتنی پرانی ہے جتنی مملکت خدادادِ پاکستان نے عمر پائی۔آزادی کے بعد خیالِ زد عام تھی کہ نوزائیدہ ملک جلد ہی ناقابل تسخیر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی بہترین نہری نظام، ذرخیزی ،مختلف موسموں کی بنا جلد ہی دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صفوں میں شامل ہوکر اقوام عالم میں اپنا لوہا منوائے گا بلکہ اقوام عالم بالخصوص تیسری دنیا کے معاشروں کے لیے ترقی کے میدان میں مشعل راہ کا کام دے گا لیکن پاک امریکہ تعلقات برابری کے دوستی کی بجائے،اس دھرتی کے تقاضوں کے برعکس رہی ہے اور نہ ہم نے اس دھرتی کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔اس دوستی میں کیا کھویا کیا پایالیکن سورج مکھی کے پھول کی طرح ہمیشہ اپنا مکھڑا امریکہ کی طرف کر لیااور اس سفر میں امریکہ کی گود میں پلنے والی سورج مکھی کا پھول بن کر ترقی کی روشنیوں کی بجائے اندھیروں کی غذا بن کر اس سفر دوستی کی انجام دہی کرتے ہوئے ہر موڑ پر بدنام ہوگیا۔آخر کار مسڑ ٹرمپ صدر امریکہ نے برملا اعلان کر دیا کہ پاکستان کے ساتھ دوستی امریکہ کی بیوقوفی اور کئی ارب ڈالر کی فراہمی کے باوجود اسی امداد کے عواض امریکہ کو کچھ نہیں ملا۔کیا واقعی مسٹر ٹرمپ کا موقف درست ہے ؟ اگر صاحب موصوف کی موقف کو عقل کی دلیلوں سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو گلہ مندی اور دھمکی کے ساتھ ساتھ پاک امریکہ دوستی کا صحیح سمت ماضی کے احسانات کے ساتھ ساتھ مستقبل کی امیدوں اور نویدوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ اگر چہ ہمیں 14 اگست1947ء کو آزادی ملی لیکن پوری زندگی خارجہ اور اندرونی پالیسی امریکیوں کے خواہشات کی عین مطابق عمل کیا گیا اور ایک دوست ملک کی بجائے ایک وفادار غلام ملک بن کر آقا کی ہر خواہش کی تکمیل میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ٹرمپ صاحب کا یہ کہنا بجا ہے کہ امریکہ کی طرف سے بے دریغ ڈالروں سے ملک کو صرف اس بنا پر نوازا جاتا رہا کہ اپنی دھرتی کو سنوارنے کی بجائے امریکی ڈالروں کے حصول کے لیے جس میں حکومتیں گرانے اور سازشیں کروانے میں مصروف رہے اور یہ امدادی رقوم سے ابھی تک جاری و ساری ہے۔کسی دور میں بھی اسی امداد سے ہسپتال یا ڈیم وغیرہ تعمیر نہ ہوئی جس کا وافر مقدار میں پانی کے باوجود بجلی کی سہولت سے عوام محروم ہے اور عوام کو ہم ہر طرف سے بھوکا رکھا۔آقائے امریکہ کو خوش کیا۔ہم نے مریض کو ڈسپرین کی گولی سے بھی محروم رکھا لیکن امریکی پالیسی کے خلاف بولنے ولوں پر بندوق کی گولیاں برسائیں۔جب قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اس قو م کی خودمختاری اور انحصاری کا بیڑ ہ اٹھایا تو ہم نے اس جرم کی پاداش میں نہ صرف اس کو چھپ کر گولی سے اڑایا بلکہ معزز عدالت کے ذریعے سے اسے مجرم قرار دے کر پھانسی پر چڑھایا اور اس میں نو پارٹیوں کو متحد کرکے نفاز شریعت کا بہانہ رچا کر انہیں اس کے خلاف یک آواز ہونے کے لیے متحد کیا یہاں تک ذوالفقار علی بھٹو شہید کسی زمانے میں امریکہ کو سفید ہاتھی کہا تھا۔اسی پاداش میں عدالتی قتل کروا کے امریکہ گستاخی کا بدلہ قائد عوام اور عوام سے لے لیا۔ اس کے بعد ایک فوجی آمر ضیا ء الحق کو نہ صرف صدر پاکستان کی حیثیت سے مختار کل بنایابلکہ امیرالمومنین کا خطاب بھی صرف امریکہ نواز ی اور امریکی غلامی کی عوض ہی دے کر اپنی وفاداری کا ثبوت دیا۔ پھر جب نواز شریف نے پاکستان کو منشائے امریکہ کے برعکس ایٹمی تجربہ کروایا اس کو بھی ایک جنبش فوجی لاٹھی وزارت عظمی ٰ کے عہدے سے نہ صرف ہٹا یا بلکہ قیدی بنا کر ملک بدر کر دیا اور پرویز مشرف کی قیادت میں فرض بندگی ادا کرتے رہے اور ساتھ ہی اپنے دین و ایمان کا واحد ذریعہ قرآن مجید جو کہ پوری نظام حیات ہے صرف وعظ و نصیحت ،محفل میلاد اور جنازے کے جلوسوں کے لیے مختص کرکے محدود کردیا جس کا ثبوت اگر چاہے تو اسمبلیوں میں بھیجے ہوئے دور جمہوریت کی ضرورت ہونے پر ان لوگوں کو اٹھا کر بیٹھا ئے جنہیں سورۃاخلاص قرآن عظیم الشان کی سب سے چھوٹی سورہ ہے کی یا دسے محروم ہے۔ مشہور سیاسی قائدین خاص کر رحمان ملک کی قرات سے سب پر عیان ہو چکی ہے۔ ہم نے ان ڈالروں کی عوض مذہبی حلقوں میں بھی نفرت کی منڈی سجائی ہے جو ہر وقت امت مسلمہ کو ٹکڑوں میں تقسیم در تقسیم کرنے کے لیے ہمہ تن تیار ہیں اور اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ہم بحیثیت مسلمان ملت صرف امریکہ کی منشا کے مطابق روس کے خلاف لڑنے والوں کو مجاہد اور اسی بنا امریکہ کے خلاف لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر اس ملک میں بسنے والے ماؤں کی گودیں خالی کردی۔ معصوم چہرے اور جانیں جو کبھی دبستان کی زینت تھی ان کو اجاڑ دی۔ اس کے باوجود بھی امریکہ ہمیں مذہبی جنون زدہ قرار دیتاجاتا ہے۔حالانکہ ہم ان ڈالروں کی عوض ملک اور قوم کو جنتا قربان کیا ان کی مثال چنگیز اور ہلاکو کے ادوار میں بھی نہیں ملتا۔

Print Friendly, PDF & Email