قدیم اور موجودہ شاوان

زمانہ قدیم سے لیکر تا ماضی قریب تک پاکستان کے شمالی ٰعلاقہ جات گلگت بلتستان  اور چترال کے باشندوں کی سماجی زندگی میں شاوانکی شمولیت کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ شکار و زمینداری کے امور سے لیکر مال مویشیوں کی حفاظت تک شاوان اور اس کی کردار کو اہم حیثیت دی جاتی تھی۔ لوگوں میں عقیدہ تھا کہ شاوان کی ناراضگی مال مویشیوں کا نقصان اور فصلوں کی تباہی کا سبب ہوگا۔ مختصر یہ کہ گھر کے مرحومین کی ارواح کی ناراضگی بھی شاوان برداشت نہیں کریں گے۔ اس لیے مرحومین کے نام خیرات اس بنا پر کرتے کہ کہیں ان ارواحوں کی ناراضگی گھر کاشاوان جسے عرف عام میں خانگی کہا جاتا تھا۔ ناراض ہو کر کوئی نہ کوئی نقصان کا سبب نہ بنے۔ جو عام طور پر مال مویشی چراگاہ میں نقصان ہونے، اور کسی وقت گھر کے افراد کو چوٹ وغیرہ سے لگنے کی صورت میں وقوع پذیر ہونے کا حادثہ رہتا تھا۔ یہاں تک کہ مہلک بیماریوں چچک وغیرہ سے محفوظ  رہنے کے لئے گھر کے کسی طاق، راستے میں میں اکثر دودھ یا شوشپ  رکھ دتیے تھے جو شاوان نذر سمجھا جاتا جسے مقامی زبان میں اشٹریک  کہتے تھے۔ تا کہ اس بنا گھر کے بچے اور بچوں کو آفت و مہلک بیماریوں سے شاوان کی خوشی کے بدولت محفوظ رہے۔ شکاری لوگ بفرض شکار کئی دنوں تک پہاڑوں میں گزارتے اور اپنی خوراک کے ساتھ شکار گاہ میں شاوان کے لئے بھی اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے آٹے سے پیڑہ بنا کر اسے مقامی زبان میں "شیرکی” کہتے ہیں لے جاتے اور ساتھ ہی ریشم یا چمکیلے کپڑے کا ٹکڑا بھی شامل کرکے راستے میں خاص مقامات پر” شیرکی” رکھ دیتے اور ریشم وغیرہ خاص درخت پر باندھ لیتے۔ "شیرکی” کو شاوان کیلئے جبکہ ریشم کے ٹکڑوں کو جن پریوں کیلئے تحفہ یا سوغات سمجھا جاتا تھا۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ جن، پریاں شاوان کے تابع ہوتے ہیں اور حدشہ تھا کہ شاوان کی ناراضگی کی بنا جن پری انہیں شکارگاہ میں نقصان پہنچایئں گے اور شکار بھی ہاتھ نہ آئے گا جبکہ شاوان کی خوشی کی بنا شکار کی دستیابی کے علاوہ راستےسے بھٹکے ہیں جن پریاں رہنمائی کریں گے۔ اس طرح شکار گاہ میں شکار کی زمہ داری اور شکار نہ ملنے کی وجہ اور کسی نقصان کا سبب "شاوان” ہی پر عاید کرتے۔ شاوان یا جن پریوں کے متعلق عجیب وغریب کہانیاں شمالی علاقہ جات اور چترال کے معاشرے میں اب بھی زبان ذر عام ہیں  یکسر نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ جن میں بعض اوقات شکاری کو شکار پر نشانہ سے روکنا، بندوق کا مس فائیر ہونا، اگر مزید ضد کرکے فائیر کرے تو شکاری کو پہاڑ سے گرانا زخمی کرنا بعض اوقات شکاری کو جان سے ہاتھ دھو لینا بھی "شاوان” کی احکامات کی حکم کی عدولی کا سبب سمجھتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ اس سبب سے جنگلی حیات کی حفاظت اور انتظام "ݰاوان” احسن طریقے سے انجام دیتا اگر موجودہ وائلڈ لائف سے موازنہ کیا جائے تو "شاوان” کی نگرانی جنگلی حیات موجودہ وائلڈ لائف سے بدرجہا بہتر تھی۔

شکاری اور "شاوان” کے کچھ واقعات اس میں حقیقت کی عکس بھی نظر آتی ہے اس قسم کی ایک ناقابل فراموش واقعہ دلچسپی قارئین کے لئے پیش ہے جو کہ چند سال پہلے چترال کے جانی پہچانی شخصیت محترم استاد مولا نگاہ نگاہ صاحب جنھیں کھوار ثقافت اور تحقیق میں مہارت حاصل ہے اور استاد موصوف کی شخصیت سے واقف افراد کو اس حقیقت کو یقین کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوگا۔ اور اس کا تعلق بھی چترال کے خوبصورت گاؤں تریچ سے ہے اور  یہ علاقہ ماخور کے شکار کے حوالے سے بھی مشہو ر ہے۔  واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دفعہ علاقہ تریچ سے ایک شکاری نام میرے حافظہ اگر غلط نہ ہو "سوما” بتایا تھا جو مارخور کا ماہر شکاری  تھا ایک دن حسبِ معمول شکارپر نکل گیا۔ اور شکار گاہ میں اسے خوبصورت مارخور جو غیر معمولی خوبصورت، قد میں بڑا، بڑے بڑے پرپیچ سنگوں والا جسے دیکھتے ہی شکاری کا شوق شکار جوش مارے     اس نے بھی  جلدی سے جب مارخور پر بندوق کا باندھا تو درمیاں میں ایک بزرگ صورت انسان شکل شکار کے سامنے بندوق کے نشانے میں کھڑا پایا۔ انسانی صورت دیکھ کر جب شکاری بندوق نشانے سے ہٹایا تو وہ بزرگ صورت بھی نظروں سے اوجھل ہوا صرف خوبصورت مارخور ہی دکھائی دیا۔ شکاری  اسے اپنا وھم  سمجھ کر جب دوبارہ نشانہ باندھا تو دوبارہ وہی انسانی صورت ایک بزرگ کے لباس میں  سامنے آیا۔ پھر جب نشانہ ہٹایا تو کوئی موجود نہ تھا بلکہ وہی مارخور ہی تھا۔ کئی بار یہ سلسلہ چلتا رہا ادھر شکاری سے رہا نہ گیا آخر کار اس بزرگ صورت کو بیچ میں حائل  ہونے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شکاری نے بندوق چلا دیا اور اس خوبصورت مارخور کا شکار کرکے گھر لے آیا۔ شکاری نے اپنی ہوس  شکار پورا کیا لیکن گھر پہنچتے ہی بیماری کا ایک ایسا حملہ ہوا کہ شکاری حرکت کرنے کے قابل نہ رہا۔ اس نے  سارے واقعات سے طبیبوں اور دم کرنے والے پر ظاہر کیا لیکن کوئی علاج یا دعا کاریگر نہیں ہوا۔ یہاں تک شکاری نیم جان لاشہ بن کر فرشتہِ آجل کا منتظر رہا۔ ایک روز صبح سویرے یہ دیکھ کر تیمارداروں ارو گھر والوں کو حیرانی ہوئی کہ وہ بیمار لاشہ جان جو کہ بستر مرگ میں کئی دنوں سے پڑی تھی حرکت کرنے کے قابل نہ رہی تھی اپنے بستر سے غیب تھا۔ کوششِ بیسیار کے باوجود نام ونشان کہیں نہیں ملا۔ جب سارے گاؤں والے تلاش سے بھی اکتا گئے۔ تو اچانک کسی نے حرمن کے "لاوار” (حرمن کے ساتھ برامدہ تماجگہ) جہاں چھت بنا کر فصل کا اسٹاک رکھتے ہیں۔ اس کے بڑے وزنی شہتیر کو بمع چھت اٹھا کر اسکا لاش دبایا گیا ہے۔ خبر ملتے ہی لاش دفنایا گیا اور اس کو "شاوان” کی حکم عدولی کا نتیجہ سمجھ کر سب غم کے انسو پی لیے۔

اگرچہ موجودہ وقت میں "شاوان” کی اہمیت ختم ہوگئی ہے لیکن بوقت شکار مارخور کچھ شکاریوں میں اب بھی موجود ہے لیکن پورے پاکستان میں شاوان کی بجائے خفیہ ایجنسیو ں نے لی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ قدیم شاوان جنّات  اور پریوں کی نسل سے پہچانا جاتا تھا جبکہ اب جنوں کو انسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ شاوان کی مدد کیلئے اور احکامات کی عملدرامد کے کیلئے جن پریوں کو ذمہ دار سمجھا جاتا ۔لیکن پاکستان میں ایجنسیوں کا تابع فوجی بعض جرنیلوں اور اعلیٰ عدلیہ کے بعض جج صاحبان کو سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں شاوان کے وارداتوں کو کئی نہیں دیکھ سکتا تھا اور انسانی آنکھ سے اوجھل تھی۔ موجودہ ایجنسیوں کے امور بھی عوامی آنکھ سے مشہور ہے۔ اس بنا پر کوئی قانونی کاروائی اس دور کے شاوان کے خلاف بوجہ عدم شہادت نہیں ہوسکتی تھی۔ اس طرح ایجنسی کے خلاف بھی بوجہ عدم ثبوت کوئی بھی قانونی  کاروائی نہیں کی جا سکتی۔

فرق صرف یہ تھا کہ قدیم شاوان  اپنے دائیرہ اختیار سے تجاوز نہیں کرتے تھے جو صرف جنگلی حیات کی تحفظ، اور شکار گاہوں و پہاڑوں، دریاؤں کو آلودگی سے پاک کرنے کے غرض سے یا کسی بزرگ کی ارواح کو عزت و احترام کی کمی کے سبب ازراہ تنبیہ کچھ پریشانیاں کرتے لیکن ملک کے اقتدار اعلیٰ، عدلیہ، انتظامیہ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اس قسم کی مداخلت ملک میں غیر یقینی صورت حال پیدا کرے گا جو ملک و ملت کے وجود کے لیے خطرہ ہوگا۔ اس لیے انہیں ازادانہ کام کرنے کے لیے مداخلت سے گریز کرتے تھے اور نہ اپنے آپ کو سیاہ سفید کا مالک اور ہر فن مولا سمجھتے تھے۔ صرف اپنے کام سے کام رکھتے تھے جو سیاست سے علیحدہ رہتے۔

موجودہ وقت میں ہمارے ایجنسیوں کے شاوان بھی ان قدیم شاوان کے نقش قدم پر چلئے تو اس ملک کا شمار بھی تہذیب یافتہ، ترقی یافتہ، آزاد قوموں کی صف میں گنا جائے گااور عدل وانصاف کابول بالا  ہونے کے ساتھ عوام ترقی کی راہ پر گامزن ہونگے۔

Print Friendly, PDF & Email