طاہرہ، ایک لاش کی کہانی

میں اس وقت بارہویں جماعت کی طالبہ تھی، باپ کا سایہ نہ ہونے کی وجہ سے زندگی میں کسی آسائش کی کوئی گنجائش نہیں تھی، بیوہ ماں بہت مشکل سے ہمیں پال رہی تھی، اس دن بھی کالج کے لئے گھر سے نکلی انہی سوچوں میں گم تھی، اچھے مستقبل کے سہانے خواب دیکھنے پر کوئی پابندی جو نہیں ہوتی، سوچوں میں گم جب آدھے راستے پر تھی تو کچھ عجیب سا احساس ہونے لگا، ایسا لگا کہ کچھ ہونے والا ہے، لڑکی ذات، خوابوں میں گم ہونے کی وجہ سے اکیلی ہی چلی جارہی تھی، چترال کے مہذب معاشرے میں اکیلی لڑکیوں کا سکول، کالج آنا جانا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی، اس لئے اعتماد تھا کہ یہ گاؤں اور سکول کی سڑک ہی نہیں بلکہ یہ سب لوگ مجھ یتیم کے محافظ ہیں، پھر ڈر کس بات کا، مگر آج کچھ ٹھیک نہیں لگ رہاتھا ، ایک خوف کی کیفیت طاری ہونے لگی تھی، پھر ایسا لگا کہ کوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کررہا ہے، خوف میں اضافہ ہوا، میں بھاگنے لگی، خوف کے مارے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی سکت نہیں تھی، ہوش تب آیا جب میں گورنمنٹ ہائی سکول ہرچین کے اندر موجود تھی، چونکہ میری پڑھائی اسی سکول میں ہوئی تھی اس لئے میں اپنے آپ کو گھر سے زیادہ اس سکول کے اندر محفوظ سمجھ رہی تھی۔
سکول کے اندر مجھے تسلی دی گئی، پانی پلایا گیااور واقعے کے بارے میں پوچھا جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا تھا سب کچھ بیان کیا انہوں نے مشورہ دیا کہ میں پولیس میں رپورٹ کروں اس کے بارے میں۔ انہوں نے ہمت افزائی کی کہ اگر میں ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاؤں گی تو کل کو یہ سب کے ساتھ ہونے لگے گا، درخواست لکھ کر اس تسلی کے ساتھ تھانے میں جمع کروایا کہ وہ سب لوگ اس کی گواہی دیں گے، اس درخواست میں کیا لکھا ہوا تھا مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ، اس دوراں اس بات کو بھی کنفرم کیا گیا کہ میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرنے والا بندہ کوئی اور نہیں اسی سکول کا چوکیدار تھا، سرزنش کے بعد ان کو سخت ترین انجام کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
پھر میرا کیس شروع ہوا، کیس چلتا رہا، میں پورے علاقے میں بدنام ہوگئی، حالانکہ مجھے کسی نے چھوا تک نہیں تھا، کیس کے دوران کئی دفعہ معزز ججز نے سمن بھیجا، مجھ یتیم کو سبز باغ دیکھا کردرخواست دینے پر مجبور کرنے والوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا گیامگر ہر دفعہ عدالت کے کٹہرے میں، میں اکیلی اپنا دفاع کرنے پر مجبور تھی۔کوئی نہیں آیا میری بے بسی اور پاکدامنی کی گواہی دینے، میں مزید بدنام ہوتی گئی، لوگوں کی نظروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی تھی، میں یتیم لڑکی، کئی دفعہ اپنے محسنوں کے پاس گئی، ان کی منتیں کیں، ان کو بتایا کہ میں گاؤں میں سراٹھانے کے قابل نہیں رہی، لوگوں کی معنی خیز نظریں برداشت کرنا میرے بس سے باہر ہوگیا ہے، میں ان کے سامنے گڑگڑاتی رہی، روتی رہی، مگر انہوں نے میری بے بسی کی گواہی نہیں دی، مجھے اس چیز کا اندازہ نہیں ہوسکا کہ میں چارے کے طور پر استعمال ہوچکی ہوں، یہ سب عالم برزخ کے باسی ہونے کے بعد پتہ چلا۔
پھر فیصلے کی گھڑی آگئی، میں مزید ہتک آمیز رویے برداشت کرنے کو تیار نہیں تھی، اس واقعے کے بعد میری ماں آہستہ آہستہ مرنے لگی تھی روز وہ تھوڑا سا مرتی، پھر شاید میری ماں کو یاد پڑتا کہ اس کے بچے یتیم ہیں، ایک ہی دفعہ مرنے کا پروگرام کینسل کرکے ہمیں زندہ رکھنے کی کوششوں میں لگ جاتی، کیا مشکل دن تھے، اللہ کسی کو نہ دکھائے، اس دن میں کالج کے تیار ہوئی، تیار کیا ہونا تھا ایک کالی چادر ہی تو لینی تھی، گھر سے فیصلہ کرکے باہر آئی تھی کہ یا تو آج اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرکے گھر آنا ہے یا پھر اللہ میاں کے پاس جانا ہے، میری ماں چوہے مارنے کے لئے زہر کل ہی خرید کر لائی تھی، وہ زہر شام کو ہی قبضے میں کرچکی تھی، میں سکول پہنچی، اپنے محسنوں سے گزارش کی کہ وہ آج میرے ساتھ عدالت چلیں اور میری بے گناہی کی گواہی دیں، جن ناکردہ گناہوں کی سزا میں بھگت رہی ہوں اس سے میری جان چھڑائیں، ورنہ میں زہر کھا کر ادھر ہی خودکشی کرلوں گی، مگر کسی نے میری بات کو سنجیدہ نہیں لیا، ایک گھنٹے بعد میں نے سکول کے اندر ہی زہر کھا لیا۔ پھر بتایا کہ میں نے زہر کھا لیا ہے میرے ساتھ عدالت یا تھانے تک چلیں، یا کم از کم مجھے ہسپتال تک لے جائیں۔کسی نے توجہ نہیں دی بلکہ سب ایک ایک کرکے سکول سے جاتے رہے، زہر کھانے کے تین گھنٹے بعد زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا، سر گھومنے لگا، میں گر گئی، پھر ہوش نہیں رہا۔
جب ہوش آیا تو سکول کے اندر کوئی بھی موجود نہیں تھا میں مجبوراً گھر جانے کے لئے اٹھی، سکول کے گیٹ پر میری ماں موجود تھی، کسی سے پوچھ رہی تھی کہ طاہرہ گھر نہیں آئی آج، میں نے اپنی ماں کو آواز دی، اپنی ماں کے پاس گئی مگر وہ مسلسل میرے بارے میں پوچھ گچھ کررہی تھی، میں نے بتایا بھی کہ ماں میں ادھر آپ کے پاس ہوں، چلو گھر چلتے ہیں مگر ماں مجھے چھوڑ کر پاگلوں کی طرح سکول کے اندر جانے لگی، میں بھی آوازیں دیتا ہوا ان کے پیچھے پیچھے سکول کے اندر گئی، اندر کا منظر دل دہلا دینے والا تھا، میر ی بے جان جسم اس مقام پر موجود تھی جہاں زہر کھانے کے بعد میں احتجاجاً بیٹھی ہوئی تھی، یعنی ’’میں مرچکی تھی‘‘۔
میں اب بھی اپنی بیوہ ماں کو آوازیں دیتی رہتی ہوں مگر میری آواز میری ماں تک نہیں پہنچ پاتا، حیرت اس بات کا ہے کہ مجھے مقتل گاہ تک لانے والے کیسے اپنی بیٹیوں کا سامنا کرتے ہیں، معاشرے نے کیسے ان کو معاف کیا ، عدالتوں نے کیسے ان کو معاف کیا، میرا ذگر کیوں نہیں ہوتا، میرا کیس کوئی کیوں نہیں لڑتا۔ کیا آپ لوگوں کے پاس اس بات کی کوئی کنفرمیشن ہے کہ آپ میں سے کوئی نہیں مرے گا؟۔کیا آپ لوگ اللہ میاں کی عدالت میں کبھی پیش نہیں ہوں گے؟۔
Print Friendly, PDF & Email

تبصرہ

  1. شادان

    شمس تاجک سر معاشرہ ہمارا وہ نہیں رہا جہاں انسانیت اور اخلاقیات اور ایک دوسرے کا احساس ہو آج کل ہمارے معاشرے میں ایسے ایسے شقی القلب پیدا ہوگئے ہیں کہ سن کر ہاتھ کانوں تک پہنچ جاتے ہیں تاکہ کان انگلیاں ٹھونس کر ایسی باتوں سے بے خبر رہا جائے ۔۔۔ طاہرہ بھی معاشرے کی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے