ملازمین کا شکریہ

پہلے تو ہمیں یہ تحقیق کرنا ہوگا کہ گولین گول کا بجلی گھر عوامی ٹیکس کے پیسوں سے بنا ہے، برادار اسلامی ممالک کے زکوۃ کے پیسوں سے، کافروں کے شراب خانوں سے کمائے گئے حلال پیسوں سے، یا پھر عوامی ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لینے والے قومی یا صوبائی اسمبلی میں موجود ملازم یا نمائندوں نے ذاتی جائیداد بیچ کر چترال کے لوگوں کے لیے انسانی ہمدردی میں یہ بجلی گھر بنایا ہے۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا ان پراجیکٹس کو مکمل کرنے کا دعوی کرنے والے ملکی قیادت کے افراد نے ایسے پراجیکٹس کے لیے اپنا ذاتی پیسہ خرچ کیا؟ یا قومی خزانے سے ۔ اگر ان کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ان پراجیکٹس پر استعمال ہونے والا پیسہ ان کا ذاتی تھا تو ہم ان کے مشکور ہوں گے۔ اگر پیسہ قومی خزانے سے استعمال ہوا ہے تو ہم ان کا شکریہ ادا کیوں کریں۔ گزشتہ ایک سال سے ہم نے کوئی بندہ بشر نہیں چھوڑا جس کا ہم نے شکریہ ادا نہ کیا ہو۔ پھر بھی ان کا دل نہیں بھرتا۔ روز کوئی نیا تماشا تیار کرتے ہیں اور روز شکریے کا متقاضی۔یعنی وہ مقولہ کہ’’ میری بلی اور مجھے ہی میاؤں‘‘۔عوام نام کی مخلوق کبھی ان سے اس بات کا مطالبہ نہیں کرتی کہ بھائی آپ جتنے بھی شکریے کے طلب گار لوگ ہیں اپنی اپنی رسیدیں دکھاؤ کہ کس کس نے اپنے اپنے گھر سے کتنا کتنا رقم اس پراجیکٹ پر خرچ کیا ہے تاکہ ہم آپ کے یا آپ کے نام نہاد لیڈر کے دیئے ہوئے ذاتی رقم کے حساب سے آپ کا ایک ہی وقت میں شکریہ ادا کریں۔آپ کے پیٹ کے مروڑ بھی ٹھیک ہوجائیں اور ہم بھی اپنے بچوں کے سامنے روز شکریے کا اشتہار لے کر تماشا نہیں بنیں گے۔
شکریے سے یاد آیا کہ ہم لوگوں میں کتنے ایسے ہیں جو اپنے گھر کے ملازمین جیسے ڈرائیور کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے آج آپ کی گاڑی چلائی، آپ کے بچوں کو سکول تک چھوڑ آیا اور چھٹی کے بعد گھر بھی لے آیا۔ گھر میں موجود خانساماں کا شکریہ ادا کیا ہو کہ اس نے کھانا پکا کر پورے گھر کے افراد کو کھلایا۔ چوکیدار کا شکریہ ادا کیا ہو کہ وہ پورے بارہ گھنٹے گیٹ پر کھڑا رہا اور مستعدی سے کام کیا۔ کتنے لوگ ہیں جو ان افراد کا شکریہ ادا کرتے ہیں؟ اگر گھر کے ان خدمت گزار ملازمین کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو جن کو ووٹ دے کر اسمبلیوں تک پہنچایا اور لاکھوں میں تنخواہ ادا کررہے ہیں وہ جب اپنی ڈیوٹی سرانجام دیں تو ان کا شکریہ کیوں ادا کریں۔ یہ منطق کبھی سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ بھی ملازمت کررہے ہیں یہ بھی ملازم ہیں۔ یہ ہمارا دوغلا پن ہی ہے جس کی وجہ سے ہم اور ہمارا ملک مسلسل تباہی کی طرف جارہا ہے اور ہم ہیں کہ ایک ’’نہ‘‘ کہنے کی بجائے ملک ڈبو رہے ہیں۔
قوموں کی تربیت صدیوں کا کام ہے۔ آپ چار لفظ لکھ کر یا گھر میں موجود دو بچوں کو یہ بتا کر کہ وہ انسان ہیں۔ اپنے آپ کو اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں سمجھ سکتے جو قوم کی تربیت کی مد میں ہر فرد پر فرض ہوتا ہے۔تربیت کا قرض ہر حال میں فرض اولین سمجھ کر ہر فرد کو پورا کرنا ہوگا ۔ اپنی تربیت کے انداز کو ایک نئے رخ پر لے کر جانا ہوگا اور تسلسل سے جاری رکھنا ہوگا، یعنی ہر نسل کو، گھر میں موجود ہر بچے کو اور معاشرے میں موجود تمام افراد کو یہ متواتر بتانا ہوگا کہ وہ انسان ہیں۔ اللہ کی ذات کے سوا کوئی بندہ نہ کسی کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ ہی چھین سکتا ہے۔ انسانوں کے سامنے سجدوں میں گرے ہوئے سروں کو اٹھا کر شعور سے عاری لوگوں کو سوال کرنے کا ہنر سیکھانا ہوگا۔ جس دن لاچاری اور بے بسی کو آپ سوال بنانے میں کامیاب ہوگئے اس دن پھر دوغلے لوگ قوموں کی ذمہ داریوں سے خود کو الگ کرلیں گے۔ آپ کے پاس بازپرس کی طاقت موجودبھی ہے اور سوال آپ کا حق بھی ہے کیونکہ آپ اپنے ملک کی تعمیر ترقی، معاشرے کی بہتری اور عوامی فلاح کے ہر کام کے لیے قیمت ادا کرتے ہیں، ٹیکس کی صورت میں۔پھر ذمہ داروں سے پوچھنے کا حق بھی آپ ہی کے پاس ہے۔
غلامی کے اس خول سے باہر آنا ہوگا جس کی وجہ سے ہماری نسلیں غلام ابن غلام پیدا ہورہی ہیں۔ ہمیں غلط کو غلط کہنا ہوگا۔ پیسے دے کر، ووٹ دے کر اپنے لیے دیوتا اور انسانوں کو جن بنانے کے رسم کو توڑنا ہوگا۔ افراد کو اپنا نظریہ بنانے کے بجائے علم کو اپنا نظریہ بنانا ہوگا، شعور کو اپنا نظریہ بنانا ہوگا۔ آنکھیں بند کرکے زندہ باد کے نعرے لگانے کی بجائے آنکھیں کھول کے سوال کرنے کی عادت کو اپنا نظریہ بنانا ہوگا۔ ہر ملازم کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اچھا کام کرنے کی صورت میں ملازمین کو شاباشی دینے اور کوتاہی کی صورت میں ملازمین کی سرزنش کو اپنا نظریہ بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے معاشرے اور ملک میں سزا و جزا کے نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے عمل کو اپنا نظریہ بنانا ہوگا۔ ورنہ سیاست کے نام پرچمچہ گیری کا نظریہ ہماری نسلوں اور ملک کو برباد کرے گا۔

Print Friendly, PDF & Email