ملازم یا رہنما

کسی ڈکشنری کے بغیر ہی رہنما کے لفظ کے ساتھ جو خیال ذہن میں آتا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ رہنما کوئی ایسا شخص ہوگا جس کو اپنے مفادات سے زیادہ اس کی رہنمائی کو تسلیم کرنے والے افراد کے مفادات عزیز ہوں گے۔ اس رہنما کو معاشرے کی بنیادی اکائی گھر کے منظر میں فٹ کرنا چاہیں تو ہر ذی شعور شخص کو اس منظر میں ان کا والد محترم ہی نظر آئے گا۔ باپ بچوں کا سب سے بڑا رہنما ہوتا ہے۔ ان کی عادتوں سے، ان کے مستقل مثبت رویے سے ایک نومولود سے لے کر بال بچوں والے بچے تک سب کو اس بات پر یقین ہوتا ہے کہ ان کا باپ ان کو یا ان کے بچوں کو کبھی دھوکہ نہیں دے گا۔ وہ جو بھی کرے گا اپنے بچوں کی بھلائی کے لیے کرے گا۔ اور یہ بات کسی ایک باپ یا کسی ایک بچے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ انسانی تاریخ کا تسلیم شدہ سچ ہے کہ باپ رہنما کی حیثیت سے کبھی خاندان کے کسی فرد کو دھوکہ نہیں دے گا۔ باپ کے پاس اپنے بچوں اور خاندان کے تمام افراد کے مستقبل کے لیے ایک باقاعدہ پلان ہوتا ہے۔ کس بچے کو کس ادارے سے پڑھانا ہے اور کیوں پڑھانا ہے۔ یہ سب گھر کے رہنما کو پتہ ہوتا ہے۔ ہر بچے کی صلاحیت کے بارے میں مکمل معلومات ان کے پاس ہوتے ہیں۔ مطلب گھر اور گھر کے افراد کے ہر نیک و بد کا ذمہ دار یہ رہنما اپنے آپ کو سمجھتا ہے۔ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جس گھر کا سربراہ یا رہنما ہے اس گھر میں موجود افراد کو زندگی کی ہر سہولت میسر ہو۔ اپنی محنت سے یہ سہولت گھر کے افراد تک پہنچانے کے بعد یہ رہنما کسی بدلے کا منتظر نہیں ہوتا۔ چونکہ وہ انسانی بقا کی جنگ میں ایک با عمل اور مثبت کردار ادا کررہا ہوتا ہے۔ وہ اپنی زیر نگین لوگوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا اور ان چھوٹی بڑی خوشیوں کے لیے وہ زندگی کی ہر آسائش تج دیتا ہے۔ گھر کے یہ رہنما دنیا سے رخصتی سے قبل پیچھے مڑ کر اپنی کارکردگی اور اس کارکردگی کی بنیاد پر خاندان کے افراد کی زندگی میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کا جائزہ لیتا ہے۔ زندگی بامقصد گزرنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔ اور تب جا کر رہنمائی کا ایک بے لوث استعارہ منوں مٹی تلے پرسکون نیند سو جاتا سہے۔
منظر میں ایک اور کردار کا اضافہ کرتے ہیں، ’’ملازم‘‘!نام سنتے ہی ایک ایسے فرد کا چہرہ ذہن میں آئے گا جو اصل میں گھر کا فرد ہی نہیں ہے۔ وہ صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے گھر میں موجود ہوتا ہے۔ گھر کی بہبود یا گھر میں موجود افراد کی بہبود سے اس فرد کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ ذاتی مفادات، ذاتی پوزیشن کے حصول کے لیے ایک مخصوص وقت کا قیدی ہوتا ہے۔ گھر زلزلے کی زد میں آئے، طوفان کا شکار ہوجائے۔ یہاں تک کہ گھر کے افراد میں سے کوئی ناگہانی موت کا بھی شکار ہوجائے اس شخص کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ وہ جتنی زندہ افراد سے فائدہ اٹھانے کا ماہر ہوتا ہے اتنا ہے وہ لاشیں بیچنے کا ماہر ہوتا ہے۔ اس کے لیے انسان اور انسانیت صرف فوائد حاصل کرنے کے ذرائع ہوتے ہیں۔ مذکورہ شخص کو اگر تھوڑا بہت بھی اندازہ ہوجائے کہ آپ سے زیادہ آپ کا دشمن ان کے ذاتی مفادات کے حصول میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے تو لمحوں کی دیر سے پہلے آپ کے دشمن کا ہمنوا بن جاتا ہے۔ انسانی تاریخ کے تجربے نے کروڑوں دفعہ یہ ثابت کیا ہے کہ ملازم کی وفاداریاں ذاتی مفادات کے تابع ہوتی ہیں بلکہ زیادہ پیسے، زیادہ مراعات اور مفادات کے حصول تک پہنچنے میں اگر کوئی اور بہتر ذریعہ ان کو نظر آیا تو وہ کسی بھی انسانی رشتے کو پیسے پر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ آپ جب تک ذاتی مفادات کے تابع شخص کی خواہشات کی تکمیل کے اسباب پیدا کرنے کی وجہ ہیں۔ آپ سے بڑھ کر کوئی اور اچھا انسان دنیا میں موجود نہیں۔ مگر جیسے ہی آپ سے بڑھ کر اس کی قیمت کوئی اور لگائے آپ کون اوروہ کون، وہ کسی کو نہیں جانتا۔اب ان دو کرداروں کو معاشرے کے پلیٹ فارم پر لے آئیں اور سوچیں کہ ہم بطور معاشرہ کیا کررہے ہیں۔ ان کرداروں کی اس معاشرتی اکائی میں جو ذمہ داری بنتی ہے، جو فرائض ہیں، جو حقوق ہیں اور جو پوزیشن ہونی چاہئے۔ کیا وہ دونوں اپنی اصل پوزیشن پر کام کررہے ہیں یا ہم نے معاشرتی اکائی کے رہنما کو ملازم بنا دیا ہے اور ملازم کو رہنما سمجھ بیٹھے ہیں۔ اگر ایسا ہے، جو کہ ہے۔ تو ہم بحیثیت معاشرہ برباد ہوچکے ہیں اس تباہ شدہ معاشرے کو دوبارہ سے انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے کے لیے ہمیں صفر سے دوبارہ شروع کرنا پڑے گا۔ ہمیں معاشرے کی اکائی کے لیے کام کرنے والے افراد کو ان کی ذمہ داریوں کے حساب سیحیثیت دینا پڑے گا۔ کوئی اور آکر اس وقت تک ہمارے نظام کی بہتری، انسانی فلاح اور معاشرے کی نوک پلگ سنوارنے کی کوشش نہیں کرے گا جب تک ہم اس آنے والی قوم یا فرد کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا ہم غلامی قبول کرنے کو تیار ہیں؟اگر ہیں تو کس قیمت پر؟
اگر مایوسی کفر ہے تو کیا ہمیں اپنی اس غلطی کا ادراک بھی ہے کہ ہم افراد کو ذمہ داریاں دیتے ہوئے ہمیشہ غلطی کرتے ہیں۔غلطی کا بروقت احساس ہو تو اصلاح کی گنجائش نکل آتی ہے مگر اپنی اصلاح ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اپنی غلطی برسرعام تسلیم کریں۔ کسی بھی منافقت کے بغیر زمانے کو بتائیں، معاشرے کو بتائیں، دنیا کو بتائیں کہ غلطی یا جرم کیا ہے، سب سے بڑھ کر ذمہ دار افراد کو بتائیں کہ عوام نے آپ کو نمائندگی کے لیے چنا تھا یہ آپ کا امتحان بھی تھا، امتحان کے بعد آپ کو ملازم سے رہنما بننا تھا مگر آپ فرعون بن گئے، لہٰذا ہم اپنے انتخاب کی ناکامی پر شرمندہ ہیں۔ آپ اس ذمہ داری کے مسند پر بیٹھنے کے قابل نہیں۔ آپ ان کو نہ صرف مسند سے اتاریں بلکہ اس مسند کو بھی جلا دیں۔جس پر بیٹھنے کے بعد ایک ملازم فرعون بن جاتا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email