حرام بجلی اور لٹکوہ

رہنما ، نمائندہ، لیڈر یا جو کچھ بھی آپ کہہ لیں ایسے افراد کو۔ ان کی ایک ذمہ داری بنتی ہے اور وہ ہے منصوبہ بندی۔ اگر وہ ہوش و حواس کے مالک ہیں تو ان کو پانچ سال پہلے پتہ ہونا چاہئے کہ گولین گول کا بجلی گھر کب پیداوار دینا شروع کرے گی۔ کتنے میگاواٹ کی پیداوار ہے اور ہم کس منصوبہ بندی کے تحت کام کریں کہ مذکورہ بجلی گھر سے پورے چترال کے عوام مستفید ہوسکیں۔ عوامی لیڈرز اپنا ہوم ورک تیار رکھتے ہیں آپ ان سے کسی بھی عوامی مفاد کے منصوبے کے بارے میں پوچھیں وہ انگلیوں پر گن کر آپ کو بتا سکتے ہیں کہ اس منصوبے کا وقت تکمیل کیا ہوگا۔ کس کس علاقے کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ اور کن علاقوں کو اس سے کس وجہ سے محروم رکھا گیا ہے۔ ساتھ میں وہ اس لائحہ عمل پر بھی کام کررہے ہوتے ہیں کہ محروم رکھے جانے والے علاقے کے عوام کو بھی اس سے جلد از جلد مستفید کیا جاسکے۔اس پس منظر میں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ چترال کے منتخب نمائندے کیا کررہے ہیں۔ بجلی کی سپلائی شروع ہونے سے چار گھنٹے قبل ہماری پوری لیڈرشپ اپر چترال کے ہڑتالی عوام کے ساتھ سڑکوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وفاقی حکومت کے نمائندے صوبائی حکومت کو اور صوبائی حکومت کے کارندے وفاق کو اپر چترال کو بجلی سے محروم رکھنے کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔ سپلائی شروع ہونے کے 15 منٹ بعد سب نے الگ الگ اعلان کیا کہ یہ منصوبہ ان ہی کی مرہون منت ہے۔ بلکہ کچھ تو باقاعدہ قسمیں تک کھانے لگے ۔ اس ساری صورت حال کے آپ سب گواہ ہیں اس پورے تماشے کے بعد بھی آپ سب کیا سمجھتے ہیں ایسے لوگ رہنمائی کا حق رکھتے ہیں؟۔
مگر اس پورے قصے یا تماشے میں چترال کے ایک علاقے کا ذکس تک موجود نہیں۔ باوجود اس کے کہ اس علاقے کے لوگ ہر نیک و بد کے ذمہ دار خود ہیں۔ ان کے علاقے کی پوری بجلی اے کے ڈی این کی مرہون منت ہے۔ علاقے میں ایک چھوٹا مگر بہترین بجلی گھر ہوا کرتا ہے مذکورہ بجلی گھر کو اپ گریڈ کرکے پورے علاقے کو بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکتی تھی مگرسیاسی مقاصد کے لئے اس بجلی گھر کو ہر ایرے غیرے، نتھو پنچو کے ہاتھ کھلونا بنادیا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ بجلی گھر کا کئی کلومیٹر طویل واٹر چینل برباد ہوچکا ہے۔ واٹرچینل کی لیکچ سے لوگوں کے ذاتی گھر رہائش کے قابل نہیں رہے۔ ہر سال اس مد میں فراہم کیا جانے والا فنڈ کہاں استعمال ہورہا ہے کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ علاقے کے عوام اس مسئلے کے حل کے لئے ہر دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں کوئی سننے کو تیار نہیں۔ لٹکوہ کی سڑکیں سیلاب برد ہوجائیں یا برفانی تودوں کا شکار ہوجائیں۔ علاقے کے عوام خود ان کی مرمت کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ مگر لٹکوہ کے عوام کچھ بھی کریں ان کو چترال کا حصہ تصور کرنے کے لئے ان کے اپنے بچے تیار نہیں، چترال کی ٹاپ لیڈرشپ سے کیسے اور کیوں توقع رکھی جائے کہ وہ علاقہ لٹکوہ جو کبھی تحصیل کا درجہ رکھتا تھا وہ بھی اس کو چترال کا ہی حصہ سمجھیں۔ خدانخواستہ افغانستان، روس، چین یا انڈیا نے تحصیل لٹکوہ پر قبضہ نہیں کیاجو آپ لوگ پورے تحصیل لٹکوہ اور علاقے کے عوام کے ساتھ سوتیلوں کا سلوک مسلسل جاری رکھیں۔ گولین بجلی گھر کی پیداوار سے لٹکوہ کے پورے علاقے کو کس لئے محروم رکھا گیا۔ اس پورے منظر میں لٹکوہ کا نام کہیں بھی دکھائی کیوں نہیں دے رہا۔ کیا آپ میں سے کسی کوبھی اگلے انتخابات میں جیتنے کے لئے لٹکوہ کے ووٹ درکار نہیں۔
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ پورے چترال کو بجلی فراہم کرنے کے لئے بنائی گئی منصوبہ بندی کے ڈرافٹ کہاں ہیں۔ (یاد رہے یہاں میں خاندانی منصوبہ بندی کے ڈرافٹ کی بات نہیں کررہا ۔مبادا کل سوشل میڈیا پر خاندانی منصوبہ بندی کے کوئی ڈرافٹ اپ لوڈ کرکے جتانے نہ لگ جائیں کہ لو ڈرافٹ آگئے) میں ان ڈرافٹس کی بات کررہا ہوں جس میں باقاعدہ پلان ہو کہ چترال کے کس علاقے کو کب بجلی مہیا کریں گے۔ اس پر خرچہ کتنا آئے گا۔ کام کون کرے گا۔ ڈیزائن کیا ہوگا۔ ٹرانس میشن لائن کہاں سے جائے گی۔ کون بچھائے گا۔ تحصیل لٹکوہ اور باقی محروم علاقوں کو کب بجلی ملے گی۔ اب تک کیوں نہیں ملی۔ ایسا کوئی مواد آپ میں سے کسی کے پاس ہے؟ یقیناًنہیں ہوگا۔ دکانداروں کے پاس سامان کی فہرست ہوتی ہے۔آپ کیسے کاروباری ہیں کہ آپ کے پاس نہ مال ہے، نہ مال فراہم کرنے والے افراد کے پتے، نہ فراہم کردہ مال کی کوئی تفصیل اور نہ ہی وصول شدہ مال کی فہرست۔ پھر بھی لوگوں کے ذاتی پہناوے دیکھ کر بولنے لگتے ہیں کہ یہ سب آپ نے پہنایا ہے انہیں۔ ٹھپہ کدھر ہے۔ ٹھپے کے بغیر آج کی نسل نہیں ماننے والی۔ اگر فلاں فلاں سے بات چلتی تو سب سے زیادہ جون ایلیاصاحب کی چلتی؟ وہ فرماتے ہیں کہ

فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی
فلاں کے زخم اچھے تھے فلاں سے

یہ فلاں والی بات غزلوں میں چلتی ہے یا خوابوں میں ۔ حقیقت میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ مجھ سے فلاں نے کہا تھا کہ تحصیل لٹکوہ یا بروغل کی ٹرانس میشن لائن فلاں بچھائے گا۔ ٹھپہ دکھائیں جناب ! نہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ سے فلاں نے کہا تھا تحصیل لٹکوہ والوں پر گولین گول کی بجلی حرام ہے۔ کیوں حرام ہے۔ ٹھپہ کدھر ہے؟یہ فلاں والی گردن اب ختم ہونے والی ہے۔ اب گھر واپسی کا وقت ہے۔ جون ایلیا اسی غزل میں کچھ اور بھی فرماتے ہیں۔ان کی بھی اور میری بھی سنیں

تھا اب تک معرکہ باہر کا درپیش
ابھی تو گھر بھی جانا ہے یہاں سے

جون کی سنی آپ نے۔ اب میری سنیں۔ میں ہر ویک اینڈ پر گھر جاتاہوں میرے پاس ایک دستی بیگ ہوتا ہے اس میں بچوں کے لئے چپس، چیونگ گم اور بسکسٹ وغیرہ ہوتے ہیں لاسٹ ویک اینڈ پر چونکہ بارش ہورہی تھی میرے گھر جانے کے چانسز ذرا کم تھے۔ میری تین سال کی چھوٹی پھول جیسی بچی ہے جب ان کو پتہ چلا کہ میں گھر نہیں جارہا ہے تو ان کی ایک ہی ڈیمانڈ تھی کہ پاپا آپ بھلے نہ آئیں۔ مگر اپنا دستی بیگ کسی کے ہاتھ گھر بھیج دیں۔ ان کو پتہ ہے کہ چپس، چیونگ گم وغیرہ اس دستی بیگ میں ہیں۔ چند مہینوں بعد آپ لوگوں کو بھی گھر آنا ہے۔ ”آپ کے دستی بیگ میں کچھ ہے ؟یا بیگ خالی ہے”؟

Print Friendly, PDF & Email