مہذب بے غیرتی

یوسفی صاحب کے ’’ آب گم ‘‘میں ایک خان صاحب کو جب غصہ دلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ’’پشتو میں اس کے لیے بہت برا لفظ ہے‘‘ میں کئی سالوں سے یہ لفظ کسی جملے، کسی پیراگراف یا کسی لیکچر میں استعمال کرنا چاہ رہا تھا خدا کا کرنا دیکھئے کہ آج اپنے آپ پر استعمال کرنا پڑا۔
آج کل چترال کی ہر گلی کوچے میں صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ زیر بحث ہے۔ ہر کوئی اپنے حساب سے جھوٹ بول رہا ہے۔ جھوٹ اس لیے کہ چترال میں پیدائش اور اب عمر عزیز کا 60 فی صد گزارنے اور بہت سارے مہذب مشاہدات کے بعد یہ بات میری سمجھ میں آگئی ہے کہ ہم لوگ مہذب نہیں۔ ہمارا بس نہیں چلتا اور دنیا کو دکھانے کے لیے تہذیب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ چند باربار دہرائے جانے والے مثالوں سے اس کوثابت کرنے کی کوشش کروں گا۔ آپ پھر بھی نہ سمجھیں تو بھلے آنے والی کئی نسلوں تک اپنے آپ کو ’’مہذب‘‘ سمجھتے رہیں۔
70 سال بنتے ہیں جب سے پاکستان بنا ہے، پاکستان بننے کے کچھ سال بعد ہی ہم چترالی بھی بہت جدوجہد کے بعد نئے ملک کا حصہ بن گئے۔ چترالیوں کو اُس وقت بھی نسوار سے زیادہ علم سے محبت تھی۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ علم سے محبت اور صوبہ کا دور افتادہ ضلع ہونے کے ناطے الگ تعلیمی بورڈ کا قیام گزشتہ ستر سالوں میں عمل میں لایا جاتا مگر ستر سال سے ’’مہذب‘‘ چترالیوں کا علم اور قلم ہارتا رہا اور ’’غیر مہذب‘‘ لوگوں کا کلاشنکوف جیتا رہا۔ ہم آج بھی بروغل سے اپنی پھول جیسی بچی کو لے کر 24 گھنٹے کا دشوار گزار راستہ طے کرکے پشاور پہنچتے ہیں۔ 15 دن پشاور میں رہتے ہیں، منتیں کرتے ہیں بورڈ والوں کی، اپنی جائز سرٹیفیکٹ کے حصول کے لیے۔ لاکھ روپے کا قرض چڑھانے کے بعد بجھے دل اور ’’تہذیب یافتہ‘‘ تربیت کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ کبھی سرٹیفیکٹ ملتا ہے اکثر صرف چترالی ہونے کا طعنہ سہہ کر واپس آنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ اس تہذیب یافتہ بے غیرتی کے لیے ’’پشتو میں بہت برا لفظ ہے‘‘۔
وہی 70 سال بنتے ہیں جب سے ہم آزاد ہونے کا ڈھونگ رچانے لگے ہیں مگر جب بھی پشاور سے چترال آنا ہو۔ بھیڑ بکریوں کی طرح ’’مہذب‘‘ چترالیوں کو پشاور کی گلیوں میں گھومایا جاتا ہے وہ بھی رات کے اندھیروں میں۔ کیا قیامت کے لمحے ہوتے ہیں جب آپ کے ساتھ آپ کی فیملی ہوتی ہے۔ آپ کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ کس گلی میں آپ کا مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا۔ وہاں سے آگے آپ اپنی بیمار ماں، بیوی، بہن یا پھر پھول جیسی بچی کو کیا کھلائیں گے۔ کیونکہ آپ کا سب کچھ لٹ چکا ہوتا ہے۔ آپ نے بحیثیت چترالی اس کے لیے کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ آپ نے کبھی اس شناخت کے لیے آواز نہیں اٹھائی کہ چترال کے ’’مہذب‘‘ لوگوں کو چترال ڈی پورٹ کرنے کے لیے ایک عدد ’’بس اسٹینڈ‘‘ ہونا چاہئے۔ اس کے لیے بھی ’’پشتو میں بہت برا لفظ ہے‘‘۔
2015 ء میں پورے چترال کا انفراسٹکچر زلزے اور سیلاب کی وجہ سے تباہ ہوچکا تھا۔ تین سال گزرنے کے بعد بھی انفراسٹکچر کی بحالی کے لیے صوبائی یا وفاقی سطح پر کوئی کام نہیں ہوا، پورا اپر چترال تین سال سے پتھر کے زمانے کا منظر پیش کررہا ہے۔ چترال ملک کا وہ واحد ضلع ہے جہاں بجلی کی چوری نہیں ہوتی۔ بلوں کی ادائیگی میں کوئی کرپشن نہیں ہوتا۔ میٹرز کے ساتھ کوئی گیم نہیں کھیلا جاتا۔ مگر گذشتہ تین سال سے آپ کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا گیا ہے اس سے چترال کے ’’مہذب‘‘ لوگوں کو اندازہ ہونا چاہئے تھا کہ ان کی صوبائی یا وفاقی سطح پر کتنی وقعت ہے۔ حالانکہ چترال میں پانی کے اتنے ذخائر موجود ہیں کہ پورے ملک کے لیے بجلی بنانے کے بعد ایکسپورٹ بھی کی جاسکتی ہے۔ یہی چترال گزشتہ تین سال سے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے اور سب تماشائی ہیں۔ ان تماشائیوں کے لیے بھی ’’پشتو میں بہت برا لفظ ہے‘‘۔
میرے پیارے، دلارے اور ’’مہذب‘‘ بھائیو! اگر آپ لوگ 70 سال میں چترال کے لیے ایک الگ تعلیمی بورڈ، انفراسٹکچر کی تباہی کے بعد اس کی بحالی اور سب چھوڑیں ملک کے کسی بھی کونے میں چترال کے مسافروں کے لیے ایک ’’بس اسٹینڈ‘‘ بنانے سے قاصر ہیں تو صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے چیخ و پکار کرنا آپ جیسے ’’مہذب‘‘ لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ آپ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اپنی بہترین تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے صرف ایک شعر سنا سکتے ہیں۔
آپ جس آسمان میں رہتے ہیں
وہ میرے راستے میں پڑتا ہے
اور جو راستے آسمانوں کی طرف جاتے ہیں اس پر ’’تہذیب‘‘ کے گھوڑے نہیں، تکنیک کے راکٹ کام آتے ہیں

Print Friendly, PDF & Email