عجب کرپشن کی غضب کہانی

ایک شخص نے کسی دانشور سے دریافت کیا حضرت ! کرپشن کی تعریف کیا ہے؟ اسے جواب ملا کرپشن اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں ۔اگر اس فارمولے پر عمل کیا جائے تو ہمارے ہاں اداروں سے لیکر افراد تک سب اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ صاف کررہے ہیں ۔دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد عوام کا خیال تھا کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد کرپشن،لوٹ مار، لاقانونیت ،اقربا پروری اور میرٹ کی خلاف ورزیوں میں واضح کمی آجائیگی لیکن کرپشن کے عادی افراد اور اداروں نے کرپشن کےلیے نت نئے طریقے ایجاد کر لیے ہیں ۔آج کل جسے دیکھو نجی ٹسٹنگ اداروں کے بارے میں زبان اور قلم کی جولانیاں دکھا رہا ہے ۔ پاکستان کے معروف ٹسٹگ اداروں این ٹی ایس, پی ٹی ایس اور او ٹی ایس, نے بے روزگار نوجوانوں سے چالان کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ پہلے این ٹی ایس کی بات کر لیتے ہیں ۔پاکستان کے سٹوڈنٹس کی اہلیت اور صلاحیت جانچنے کی ذمہ داری ایک ایسے ادارے کو سونپی گئی ہے جس کا سابق سربراہ جعلی ڈگری کیس میں ہٹایا گیا ہے ۔موجودہ چیٔرمین نیب جسٹس( ر) جاوید اقبال صاحب این ٹی ایس چیٔرمین سمیت چار ڈائریکٹرز کو چند ماہ قبل گرفتار کروا چکے ہیں ۔جو ادارہ کرپشن کی دلدل میں گھٹنوں تک دھنسا ہو اس ادارے کو قوم کے معماروں کے مستقبل کیساتھ کھیلنے کی اجازت کس نے دی ہے؟ این ٹی ایس نے کرپشن کےلیے ایجنٹ بٹھائے ہیں جن کا کام ٹسٹ کلیئر کرنا ہوتا ہے ۔ان ایجنٹوں کو کئی مرتبہ گرفتار بھی کیا جاچکا ہے ۔نیب کے ساتھ ساتھ ایف ائی اے بھی این ٹی ایس کے خلاف تحقیقات کررہی ہے ۔ان کا آڈٹ نظام اتنا پیچیدہ ہے کوئی بھی بندہ ہاتھ ڈالنے سے کتراتا ہے اس لیے ان کے خلاف موثر کاروائی دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔ٹسٹ کے مروجہ طریقہ کار پر بھی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ مثلا محکمہ تعلیم میں بھرتی ہونے والے اسلامیات اور عربی کے امیدواروں کو پچاس سوالات کے جوابات ریاضی اور انگریزی کے مضامین میں سے دینے پڑتے ہیں ۔ایک بندہ جو کسی مدرسے سے فارغ التحصیل ہوتا ہے یا ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی میں ماسٹر ہوتا ہے ان سے ان مضامین سے سوالات کیونکر پوچھے جاتے ہیں؟ حالانکہ اسے سکول میں اسلامیات اور عربی کے مضامیں پڑھانا ہوتا ہے ۔دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہی اسامی کےلیے امیدواروں سے ٹسٹ بیک وقت نہیں لیا جاتا جس کا نقصان یہ ہوتا ہے ایک پیپر مشکل اور دوسرا آسان ہوتا ہے حالانکہ امتحان دینے والے امیدوار ایک ہی اسامی کےلیے اپلائی کر رہے ہوتا ہے ۔یہ بھی پتہ چلا ہے این ٹی ایس اپنے پیپرز ایبٹ آباد میں ایک نجی پرنٹنگ پریس سے چھپواتی ہے۔اس پرنٹنگ پریس کا مالک رضوان اور دوسرے کا نام زبیر ہے ۔بڑی کرپشن اس پرنٹنگ پریس سے شروع ہوتی ہے ۔طباعت کے بعد پیپرز پانج دن تک وہاں پڑے ہوتے ہیں ۔مذکورہ پرنٹنگ پریس کے خلاف نیب نے کئی مرتبہ چھاپہ مارا ہے ۔سوال یہ ہے اربوں روپے بٹورنے کے باوجود این ٹی ایس کا اپنا پرنٹنگ پریس کیوں نہیں ہے؟ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے گذشتہ سال این ٹی ایس کو تاریخ کا بڑا فراڈ قرار دیا تھا ۔اس کے باوجود اس ادارے کے خلاف موثر کاروائی نہیں ہورہی ۔بتایا جارہا ہے پنجاب کی اعلیٰ شخصیت کے صاحبزادے اس ادارے سے فیض یاب ہو رہے ہیں ۔این ٹی ایس کے زیر اہتمام محکمہ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن خیبر پختونخوا کے ہزاروں اساتذہ کو بھرتی کیاجارہا ہے ۔گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پہ وقت سے پہلے پیپرز آوٹ کیے گئے ،اس کے بعد ٹسٹ عارضی طور پر منسوخ ہوگئے ہیں ۔سننے میں آیا ہے پرچہ ایک لاکھ سے لیکر تین لاکھ میں بکا ہے ۔ گذشتہ چار سالوں سے خیبر پختونخواہ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ نوجوانوں کو این ٹی ایس کے ذریعے مختلف محکموں میں بھرتی کیا گیا یے ۔اس میں دو رائے نہیں ان بھرتی شدہ نوجوانوں میں بھی زیادہ تر قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔ جوں ہی وقت گذرتا گیا کرپشن کےلیے نت نئے طریقہ ایجاد کئے گئے ہیں ۔دو ماہ قبل پی ٹی ایس نامی ادارے کے زیر اہتمام ڈی سی آفس چترال میں مختلف اسامیوں کےلیے ٹسٹ لیا گیا اس میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں دیکھنے کو ملیں اس کے باوجود ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس کےخلاف کوئی موثر کاروائی نہیں کی ۔متعلقہ حکام کی توجہ چند مسائل کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اور ساتھ ساتھ بہتری کیلیے کچھ تجاویز بھی ضروری سمجھتا ہوں ۔دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض امیدوار اپنے فارم کے ساتھ دوسرے بندے کی تصاویر بھیجتے ہیں اور اصل امیدوار کی جگہ وہ امتحان میں بیٹھ جاتا ہے۔سب سے سنگین مسئلہ مقامی ممتحن کا ہوتا ہے جو اپنی دوستی، رشتہ داری، لالچ اور تعلقات کی بنیاد پر منظور نظر افراد کو مدد فراہم کرتا ہے۔ بعض سنٹرز میں موبائل فون،ہینڈفری اور خفیہ کیمروں کا استعمال بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے باقی امیدواروں کی حق تلفی ہو تی ہے ۔ٹسٹ کی شفافیت برقرار رکھنے کےلیے چند تجاویز ہیں جن کو بروئے کار لا کر ٹسٹ کے عمل کو شفاف بنایا جا سکتا ہے ۔جس میں امیدواروں کی بائیومیٹرک تصدیق ،ہر ہال میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور امیدواروں کی جامہ تلاشی شامل ہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکیں ۔

Print Friendly, PDF & Email