اسلام میں دینی اور دنیاوی تعلیم کا تصور

پاکستان کے اندر موجود تعلیمی ادارے چار واضح گروپوں میں تقسیم ہیں۔ پہلے گروپ میں سرکاری انتظام کے تحت چلنے والے سکول اور کالج شامل ہیں جن میں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ دوسرے گروپ میں کم فیسوں والے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے لیکن اساتذہ کی قابلیت محض واجبی ہے۔ تیسرے گروپ میں زیادہ فیسوں والے تعلیمی ادارے آجاتے ہیں جہاں ذریعہ تعلیم انگریزی ہے اور جہاں پڑھائی کا معیار اچھا ہے۔چوتھے گروپ میں مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔یہ چاروں گروپ پاکستان کی سوسائٹی کو چار معاشرتی اور ثقافتی رویوں میں تقسیم کررہے ہیں۔ یہ تقسیم تقریباً ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ تقسیم طبقاتی بنیادوں اور تہذیبی بنیادوں پر بھی ہے۔ کسی بھی قوم کے یک جان اور یک رنگ ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا ایک ہی نظام تعلیم ہو، لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے، چنانچہ یہ خلیج روزبروز گہری ہوتی چلی جارہی ہے اور بسا اوقات یہ ایک طرف احساسِ محرومی اور نفرت میں ڈھل جاتی ہے اور دوسری طرف اس کا ظہور احساسِ برتری اور غرور کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس نظامِ تعلیم کی دوسری خامی یہ ہے کہ اس میں سارا زور رٹے پر دیا جاتا ہے اور طالب علم کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں شاذونادر ہی کوئی اعلیٰ پائے کا سائنس دان پیدا ہوتا ہے۔ اس نظامِ تعلیم کی تیسری خامی یہ ہے کہ اس میں ایک طالب علم کی بحیثیت مسلمان دینی ضروریات کی فراہمی کا انتظام انتہائی ناقص ہے۔ پہلی جماعت سے لے کر بارہویں جماعت تک گھسے پھٹے انداز میں اسلامیات کا مضمون اس طریقے سے پڑھایا جاتا ہے کہ بس ایک رسم پوری ہوجائے۔ اس سے ایک طالب علم کو نہ تو قرآن و سنت سے صحیح واقفیت حاصل ہوتی ہے اور نہ اس کو ان سوالات کا جواب ملتا ہے جو اس کے گردوپیش میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ آج کل کے زمانے میں امت زوال کی طرف آئی ہے ،عہد رفتہ کو بھولا دیا گیا ہے۔اس میں دوسری رائے نہیں۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ کے الفاظ اگر سامنے رکھے جائیں تو وہ فرماتے ہیں آج کل کے جو بھی ایجادات ہیں یہ انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہیں اس کو کسی ایک ملت و مذہب کے ماننے والوں سے ہر گز منسوب نہیں کرسکتے چنانچہ اگر ہم مغرب کے اہم سائنسی مراکز کے بارے اگر تجزیہ کریں تو وہاں اہم عہدوں پر کئی مسلمان سائنسدان نظرآئیں گے اور کسی بھی چیز کے ایجاد کے دوران اس کے اجزائے ترکیبیہ کے جو اہم مراحل آتے ہیں اس میں مسلمانوں کیساتھ ساتھ دیگر اقوام و دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا بھر پور کردار ہوتا ہے۔ اس لیے منصفانہ تجزیہ اس طرح ہوگا کہ یہ انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ منصفانہ اعتراف یہ بھی ہے کہ مسلمان آج متاثر ہو چکے ہیں موثر نہیں ہیں۔مسلمان آج شکار ہو چکے ہیں شکاری نہیں۔مسلمان آج خادم ،سابقہ لاحقہ بن چکے ہیں مخدوم نہیں۔مسلمانوں کے پاس تسخیر کائنات کا نظام نہیں۔ مسئلہ یہ ہے امت مسلمہ کے اندر نظام تعلیم کے حوالے سے دوئیت ہے۔یہ دوہرے نظام تعلیم میں دینی نظام کو الگ کردیا گیا اور دنیاوی نظام تعلیم کو الگ کردیا گیا اس کی مثال قرآن مجید میں نہیں ملتی ، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے شہ دماغ تقسیم ہو چکے ہیں کچھ مدارس کی طرف چلے گئے اور کچھ مدارس اور خانقاہوں سے ہٹ کر کالج اور یونیورسٹی کی طرف چلے گئے جس کی وجہ سے خلیج پیدا ہوگئی وہ ان کو سمجھتے نغوذ باللہ ملحد اور یہ ان کو سمجھتے ہیں انتہاپسند اور پرانے زمانے کے لوگ۔مسٹر اور ملا میں تفریق پیدا ہوگئی۔ اگر حقیقی معنوں میں تجزیہ کیا جائے دونوں قصور وار ہیں۔ایک طرف دیکھا جائے انتہائی شہ دماغ ،اعلیٰ ترین قرآن وحدیث کے رموز جانتا ہے شاندار قسم کی علمی تحقیقات و نکات قرانیہ سے واقف ہے لیکن ایک حجام کے دوکان کے دروازے کے شیشے پر Push اور Pull لکھاہوا ہوتا ہے تو اسے پتہ نہیں ہوتا کہ اسے کھینچنا ہے یا آگے دبانا ہے۔اسے یہ بھی نہیں پتہ میرے پاس گیس اور بجلی کا جو بل آیا ہے اس میں کیا لکھا ہوا ہے ؟اس کو یہ بھی نہیں پتہ جو خط میرے پاس آیا ہے یہ ایوارڈ کی خوشخبری ہے یا گرفتاری کا چالان ہے۔معذرت کیساتھ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ دعا قنوت ،سورہ اخلاص تک سے ہمارے لوگ واقف نہیں ہیں۔انسانیت اور مسلمانوں کا جبین نیاز شرم سے عرق عرق ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں ایک طرف اعلیٰ سیاستدان ، ڈاکٹر ، شاندار قسم کا قانون دان اور اعلیٰ ترین درجے کا بیورو کریٹ ہے لیکن مجلس کے اندر سورہ اخلاص تک نہیں پڑ ھ سکتا۔ جو اللہ کا وفادار نہیں وہ مخلوق کا وفادار کیسے ہوگا ؟ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان چلانے والے شہ دماغ ہیں ان کا یہ حال ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے خرابی دونوں طرف ہے۔اگر خانقاہ مسجد اور کالج یونیورسٹی کو ملا دیا جائے تو مسجد نبوی کا خوشگوار نمونہ انقلاب اور جھلکیاں ہم کو نظر آئیں گی۔عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے مراکز کی جھلکیاں ہم کو نظر آئیں گی اور غرناطہ ،مدینہ۔انڈیا ،الحمرا اور مصر کے الازھر یونیورسٹی کے نمونے ہم کو نظر آئیں گے۔یہ ایجادات تو معمولی چیزیں ہیں بقول علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ مسلمان سورج ،ستاروں ،سیاروں اور چاند کی گذرگاہوں پر تحقیق کریں گے۔یہ ہو سکتا ہے کہ قوم کے نوجوانوں کو صحیح و موثر تسخیر کائنات والا نظام دیں۔علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک دین اور سائنس دو الگ الگ مضمون نہیں بلکہ ایک ہی مضمون کے دو حصے ہیں کیوں کہ قرآن نے بار بار مسلمانوں کو مطالعہ کائنات اور تسخیر فطرت کی دعوت دی ہے اقبال کے خیا ل میں دینی علوم ، خدا، کائنات اور انسان تینوں کے مجموعی تشخص پر مشتمل ہیں اور انہیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا اسی تصور کے زیر اثر اقبال نے ایک ایسے نظام تعلیم کاخاکہ پیش کیا ہے جس میں دین، سائنس اور حکمت کو ایک واحد مضمون کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے۔

Print Friendly, PDF & Email