حوا کی بیٹی اور آج کا زمانہ

اللہ پاک نے عورت کوکئی روپ میں پیدا کیاہے وہ ایک ماں کی روپ میں ہمیں تپتی دھوپ میں چھاوں دیتی ہے ،بہن کی صورت میں بھائی پہ فدا ہونے والی ،بیٹی کی صورت میں خاندان کی عزت ووقار کی نشانی اور بیوی کی صورت میں شوہر کے ہر دکھ سکھ کا ساتھی۔اللہ پاک نے ان رشتوں کو خوبصورت بنا کر ہمیں عطا کیا اور یہ ذمہ داری ہمیں دے دی کہ ان کا خیال رکھیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی وہ ذمہ داری بخوبی انجام دے رہے ہیں یا نہیں ؟جس کا ہمیں اس پاک ذات نے حکم دیا تھا ؟ وطن عزیز کے حالات دیکھ رہی ہوں آفسوس ہوتا ہے مجھے یہ دیکھ کر کہ جس ملک کو ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا آج اسی ملک میں تمام وہ کام کیے جارہے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ آج ایک عورت جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو وہ صرف ایک عورت کی روپ میں ہی باہر نہیں نکلتی بلکہ ایک ماں ، بہن، بیٹی اور ایک بیوی کی روپ میں ہوتی ہے مگر ہوس زدہ مرد کی نگاہ کا کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا وہ ایک عورت کی طرف غلط نگاہوں سے دیکھتا ہے تو یہ بات بھول جاتاہے کہ اس کے گھر میں بھی خواتین موجود ہیں، ان تمام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دراصل مردرشتہ کی عزت کرتے ہیں۔ ایک عورت کی نہیں اور آج تک ہمیں عورت کی عزت کرنا نہیں آیا۔ سال 2018ء کا آغاز ہمارے ملک میں معاشرتی لحاظ سے کچھ اچھے طریقہ سے نہیں ہوا۔ سال کے پہلے ماہ میں ہی نجانے کتنے واقعات ایسے سننے میں آئی کہ کتنی معصوم بچیاں کہ جن کی عمر ابھی صرف خواب دیکھنے ، گڑیوں کے ساتھ کھیلنے ،امی ابو سے اپنے لاڈ اٹھانے کی تھی۔نہ کہ لوگوں کو ان کی لاشیں گندی نالوں اور گندگی کے ڈھیر سے اٹھانے کی۔ نجانے اس ماں پہ کیا بیتی ہوگی جب اس تک یہ خبر پہنچی کہ جس بیٹی کو وہ لاکھوں پردوں میں رکھتی تھی۔ آج اسی کی لاش سڑک پر ان کو ملی۔ کیا اس مرد نے اس بچی پر غلط نگاہ ڈالنے سے قبل ایک بار بھی یہ نہ سوچا ہوگا کہ وہ صرف اپنی ہوس کی تکمیل کے لیے ایک بچی سے اس کے خواب، ایک خاندان کی عزت ایک قوم کا روشن مستقبل اور نجانے کیا کیا چھین رہا ہے۔ کچھ دنوں سے میڈیا میں سات سالہ بچی زینب جس کا تعلق قصور پنجاب سے تھی کی خبر آرہی ہے کہ وہ ننھی سی بچی چار جنوری سے لاپتہ تھی جبکہ اس کے والدین عمرہ کے لیے گئے ہوئے تھے، ان کو کیا پتہ تھا کہ اپنی پھول جیسی بیٹی کو وہ آخری دفعہ دیکھ رہے ہیں ،گیارہ جنوری کو یہ سانحہ پیش آیا کہ زینب کی لاش گندی کے ڈھیر سے ملی۔ لاش کے پوسٹ ماٹم سے یہ بات ثابت ہوئی کہ بچی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اسے مار دیا گیا ہے یہ خبر آگ کی طرح نہ صر ف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اس سے قبل سال 2017ء میں ضلع قصور ہی میں اسی طرح کے بارہ کے قریب واقعات رونما ہوچکے ہیں ، سال دوہزار پندرہ میں دو سو اسی کے قریب واقعات سامنے آئے تھے کہ جس میں دس سے پندرہ سال تک کی بچیوں کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں،اور المیہ یہ ہے کہ جب ان کے خلاف آواز اٹھائی گئی تو آواز اٹھانے والوں کو دھمکیاں دی گئی کہ وہ تصویریں او ر اسی قسم کے دوسرے مواد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کریں گے۔ان کو پتہ ہے کہ اس ملک کے قوانین کمزور، کرپشن اور چند دھمکیوں کے ذریعہ سے تمام صورتحال کو ختم کیا جاسکتا ہے اور بدقسمتی سے ہوا بھی یوں۔ اگر شروع دن سے ایسے سنگین مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی تو آج ہمیں اس طرح کے واقعات دیکھنے کو نہ ملتے۔ زینب کے اس واقعہ نے جیسے سب کو ہلا کررکھ دیا مگر آفسوس کہ قانون نافذ کرنے والوں اور حکومتی حکام کی جلد ازجلد کسی نتیجہ تک پہنچنے سے قبل ہی سترہ جنوری کو مردان خیبر پختونخوامیں ایک اور واقعہ سامنے آیا کہ جس میں چار سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔ آخریہ کب تک ہوتا رہے گا اور ہم کب تک خاموش تماشائی بنتے رہیں گے؟ خدارا ہمیں اس چپ کے روزہ کو توڑنا ہوگا ورنہ اس معاشرے میں ہماری بچیاں محفوظ نہیں رہیں گی۔ پنجاب کے وزیر اعلی ٰشہباز شریف نے 23جنوری کو ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کردیا کہ زینب کیس کے مجرم جس کا نام عمران علی بتایاگیا کو گرفتار کرلیا گیا اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمران اور قانون نافذ کرنے والے کیا اقدام اٹھاتے ہیں۔یہ بات ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ یہی شخص اس سے قبل چھ سات بچیوں کے ساتھ زیادتی اور پھر ان کو قتل کرنے میں ملوث رہا ہے اس شخص کو جو بھی سزا دی جائے گی بیشک ان متاثرہ والدین کو ان کی بچیاں واپس تونہیں ملیں گی لیکن آئندہ کے لیے ہماری بچیاں محفوظ ضرور رہیں گی۔

Print Friendly, PDF & Email