خودکشی اور ہمارا معاشرہ

ہم روز مقامی اخبارات میں خودکشی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی خبر ضرور پڑھتے ہیں۔جس میں زیادہ تعدا نوجوان لڑکے یا لڑکیوں کی ہوتی ہیں۔ زیادہ تر خودکشیوں کی کوئی خاص وجہ بھی سامنے نہیں آتی ۔بندہ یہ جان کر سوچ میں پڑجاتاہے کہ آخر کیا مجبوری ہوسکتی ہے کہ  کہ گلشن کا ایک پھول ادھ کھلے مرجھا جاتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں  ایک انسان معمولی سی بات پر اپنی جان کے درپے کیوں ہوجاتاہے۔جو واقعات میرے مشاہدے میں آئے ہیں ان میں سے کچھ آج محترم قارئیں کے ساتھ شیئر کررہا ہوں۔آپ بھی پڑھیے اور سوچیے آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خودکشی کا رجحان دن بدن بڑھتا جارہاہے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ بہت ہی معمولی باتوں پر ہماری نوجوان نسل اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ خودکشی کے کچھ واقعات یہ ہیں۔ان واقعات کو پڑھنے کے بعد ہمیں پتہ چلے گا اصل میں مسئلہ کیاہے۔

ایک بچی کی منگنی  دونوں  گھرانوں کی خواہش پر ہوئی تھی۔ دوسال تک شادی نہیں ہوئی ۔تیسرے سال لڑکے کے گھر والوں نے کسی وجہ سے منگنی توڑدیا۔ لڑکی کے گھر والوں کو اطلاع کردی گئی ۔ منگنی ٹوٹنے کے کچھ دنوں کے اندر لڑکی کے گھر والے کہیں گئے ہوئے تھے ۔لڑکی گھر میں اکیلی تھی ۔منگنی ٹوٹنے کا صدمہ برداشت نہ کرسکی گلے میں رسی ڈال کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔

ایک بچی کا  کالج میں داخلہ   ہوناتھی ۔بچی کےگھر والے چاہ رہے تھے کہ بچی کا داخلہ اس کالج میں ہوں۔ بچی کی خواہش تھی کہ اس کا داخلہ دوسرے  کالج میں ہو۔کالج  بھی گاؤں میں صرف ایک ہی تھا ۔ معیار کا بھی اتنا فرق نہیں تھا۔جب والدین نے اپنی مرضی سے بچی کا داخلہ اپنے پسند کے کالج میں  کروائیں تو لڑکی  دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرلی۔

تیسرا واقعہ یہ   والد محترم کہیں گئے ہوئے تھے ۔پیسے کی ضرورت پڑھی تو جیب میں دیکھا پیسےنہیں  تھے۔ جب اس نے  دیکھا  جیپ/پاکٹ    پھٹی ہوئی تھی اور پیسے گرگئے تھے۔اس وجہ سے   گھر اکر والد نے بیٹی کو  دو جملے بول دیئے ۔ صبح والد   کام کو چلدیئے  دوپہر کو خبر ملی ۔ بیٹی نے دریا میں چھلانگ لگاکر زندگی کا خاتمہ کردیاہے۔

پسند کی شادی :ایک لڑ کی  کی شادی اس کے  گھر والوں نے اپنی مرضی سے ایک لڑکے سے کرنے کا ارادہ کیا۔  لڑکی کی خواہش کسی اور لڑکے سے شادی کرنے کی تھی ۔گھر والوں نے لڑکی کی خواہش کے بغیر  اس کی منگنی کرادی۔بیٹی سے یہ   صدمہ برداشت نہ ہوا   اور خود کشی کرلی۔

مندرجہ بالا واقعات کو پڑھ کر پہلی بات یہ سمجھ   آتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین اور بچوں کے بیچ کوئی مسئلہ ایساہے کہ جس کی وجہ سے ماں باپ اپنی بات بچوں کو نہیں سمجھا سکتے ہیں اور بچے اپنی والدین سے اپنی بات آزادی سے کہہ  نہیں  سکتے ہیں۔ اس وجہ سے بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمارے نوجوان اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے بزرگ اور بڑے وہ چاہتے ہیں  جو وہ اپنے بچپن میں دیکھے ہیں یا کیے ہیں۔ ان کو زمانے اور ٹیکنالوجی کے دور کا احساس نہیں ہیں ۔اس جنریشن گیپ کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ایسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے ہیں جس سے ہر ایک کا دل دُکھتاہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے یہ ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت ا ﷲکے ہاتھ میں ہیں لیکن اپنی طرف سے مندرجہ بالا اقدام اٹھاکر اپنے آپ کو مطمئن کرسکتے ہیں ۔

والدین اور بچوں کا تعلق:

ہمارے گھروں میں عموما ماحول یہ ہے کہ  والدین  بہن بھائی یا رشتہ دار چھوٹی عمر میں بچوں کے ساتھ بہت پیار اور محبت کرتے ہیں ۔ کہیں آتے جاتے بچوں کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ کھیلتے ہیں گپ شب لگاتے ہیں ۔ جوں جوں بچے بڑے ہوتے ہیں تو والدین اور بچوں میں فاصلہ بڑھ جاتاہے ۔ جس عمر میں بچوں کو تربیت کی ضرورت ہوتی ہے  بچے سکول اور کالج میں جاتے ہیں ۔ زندگی کے میدان میں بچوں کو مسئلے درپیش ہوتے ہیں تو اس وقت والدین اور بچوں میں فاصلہ بڑ ھ جاتاہے۔ والدین  اور بچوں میں وہ بے تکلفی باقی نہیں رہتی ۔والدین اور بچے آزادی کے ساتھ اپنی باتیں اور نقطہ نظر ایک دوسرے کے ساتھ شئیر نہیں کرتے ۔ اس وجہ سے بچوں میں احساس محرومی جنم لیتاہے ۔ اس وقت والدین کی طرف سے جو بھی ہدایات ان کی بہتری کےلیے ان کو دیاجاتاہے وہ  اس کو اپنے اوپر بوجھ تصور کرلیتے ہیں۔ اس وجہ سے معاشرے میں ناخوش گوار واقعات جنم لیتے ہیں۔

انداز تربیت :والدین کبھی بھی اپنے بچوں کیلئے غلط نہیں سوچتے۔ وہ ہمیشہ ہر لحاظ سے اپنے بچوں کی اچھائی کیلئے سوچتےہیں۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بہت کم وقت میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ جس کا احسا س ہمارے بڑوں کو نہیں ہے۔ فلم ،ٹی وی، انٹرنیٹ،موبائل کے ذریعے دنیا میں رونما ہونے والے ہر ایک خبر منٹوں میں ہمیں مل رہاہوتاہے۔مثال کے طور پر گھر کے چھوٹے ٹی وی ڈرامے دیکھ رہے ہوتے ہیں جس میں والدین بچے آپس میں پیار ،محبت سے  ایک دوسرے سے  گفتگوکررہے ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے ان چیزوں کا اثر لے کر جب اپنے اردگرد کا ماحول دیکھتے ہیں تو وہ مایوس ہوجاتے ہیں ۔ اس سارے ماحول میں گھر کے بڑوں کا کردار بہت اہم ہوتاہے ۔ ہر وقت ترش لہجہ اختیار کرنے اور ڈانٹ ڈپٹ سے بچوں کی خصلتیں بدل نہیں جاتی ۔ بلکہ بدلتے معاشرے کا  ادراک کرتے ہوئے  بچوں کو پیار سے محبت  اور دلیل کے ساتھ قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ والدین یا گھر کے بڑے جس چیز سے منع کررہے ہیں وہ کیوں کس لیے کررہے ہیں ۔ اس میں اچھائی کیا ہے اور برائی کیاہے۔ سب سے اہم بات بچوں کو سناجائے ، ان کو اہمیت دی جائیں ۔ جب ان کی باتیں صحیح ہیں تو ان کو شاباش دی جائیں اگر کچھ کمی خامی ہے تو پیار محبت سے ان کو سمجھایا جائیں۔ لیکن ابھی تک ہمارے معاشرے میں اپنے سے عمر میں کم لوگوں کی نظریات اور خیالات کو اہمیت دینے کا رواج نہیں ہے ۔ اس  رواج کو عام کرنا ضروری ہے کہ گھرمیں چھوٹی عمر کے افراد اپنے ذہن سے سوچتے ہیں چاہے وہ اچھا ہے یا اچھا نہیں ہے  لیکن ان کو سننا ضروری ہے ۔ سننےکےبعد دلیل اور پیار کےساتھ ان کو قائل کرنے کی ضرورت ہے۔

حساس طبیعت ۔:والدین کو اپنے بچے /بچیوں کی طبیعت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ کوئی بچہ بہت حساس ہوتاہے ۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے اوپر روٹھ جاتاہے۔ چھوٹی سی حوصلہ افزائی پر  پھولے نہیں سماتے۔ اپنی عادت ،خصلت کی وجہ سے بچے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔ ایک  بچہ اپنے بڑوں کی باتوں پر من وعن عمل کرتاہے اور عمل نہ بھی کریں  تو ان کے سامنے خاموش ہوتاہے۔ دوسرا بچہ  سوال اٹھاتاہےاپنی دل کی بات کہدیتاہے ۔ اس لئے والدین کو اپنے بچے کی طبیعت کے مطابق اس کے ساتھ برتاؤ کرنا چاہیے۔ والدین بہتر سلوک اور اچھی تربیت کے ساتھ اپنے فیصلے اپنے بچے سے منواسکتے ہیں ورنہ موجودہ زمانے میں صرف والد/یا عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے چھوٹوں سے اپنی بات منوانا بہت مشکل ہوگی۔  والدین اپنے بچوںکو  وہ مواقع فراہم کریں کہ وہ اپنی بات اپنے والدین سےآزادی کے ساتھ کرسکیں۔ اپنی پسند اور نا پسند کے بارے میں ان کے ساتھ گفتکو کرسکیں تب والدین کو بھی اپنے بچوں کو سمجھانے صحیح طریقے سے رہنمائی کیلئے اچھا وقت میسر آئے گا۔ ورنہ آج کل کی حالت میں زور زبردستی سے کچھ ہاتھ نہیں  آئےگا۔

کھوطرزمعاشرت: کھو ثقافت میں بڑوں کے سامنے بولنے ، اپنی بات بڑوں کو سامنے رکھنے بڑوں کے ساتھ اختلاف رائے کو برا سمجھا جاتاہے۔  عموما ہمارے معاشرے میں بڑوں کی ہربات سننے کو ایک اچھا عمل اور زندگی میں کامیابی کی دلیل سمجھاجاتاہے۔اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ بڑے اپنے تجربے ،مشابدات اور جہانگیری کی وجہ سے بچوں سے زیادہ جانتے ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گھر کے چھوٹوں کو نظر انداز کیاجائے۔ ان کی پسند نا پسند کا خیال نہ رکھاجائے ۔زمانے کی ترقی کے ساتھ بچوں کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ سکول ،کالج ،بازار، جدید چیزوں کے ساتھ واسطہ ہونےکیوجہ سے قدم قدم پر بچوں کی رہنمائی کی ضرورت ہے جب ہم بچوں کے خیالات ،سرگرمی اور پسندو ناپسند سے آگاہ نہیں ہونگے ہم ان کی رہنمائی نہیں کرسکیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بچے اپنے خیالات ،پسندو ناپسند کے بارےمیں اپنے والدین کو بتائیں ۔ تب گھر کے بڑے اس قابل ہونگے کہ چھوٹوں کی رہنمائی کرسکیں۔ غلط اور صحیح کے بارے میں ان کو بتاسکیں ۔ ورنہ بچے اپنے ذہن  کے مطابق وہ کام کریں گے کہ وہ نہ معاشرے کیلئے اور نہ اپنے خاندان کیلئے سودمند ہونگے۔ جب وہ کسی راستے پر چل نکلیں گے تو اس کو سمجھانا بہت مشکل ہوجائے گی۔

خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوتاہے کہ ہماری تربیت میں کچھ نہ کچھ خامیاں موجود ہیں کہ ہمیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہوسکتاہے خودکشی کے اور بھی اسباب ہوں لیکن ہم اپنے بچوں کو اعتماد دیکر، ان کے ساتھ نرمی کے ساتھ برتاؤکرکے، ان کی باتوں کو سنجیدگی کے ساتھ سن کر اور بہتر رہنمائی کے ساتھ اس رجہان میں کافی حدتک کمی لاسکتے ہیں۔ کھو معاشرہ وہ معاشرہ نہیں رہا جو آج سے ۳۰ سال پہلے تھا۔ وقت بدلا،لوگ بدلے زمانے کے تیور بدل گئے اس وجہ سے ہمیں بھی اپنی طرزعمل اور زندگی گزارنے کے ترکیب میں تبدیلی لانےکی ضرورت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے