سری لنکا کی سیر قسط 1

سنگاپور میں ایک ثقافتی ورکشاپ سے واپس آتے ہوئےگزشتہ نومبر میں  کچھ دن سری لنکا میں گزارنے کا موقع ملا۔ جہاں پر ہم نے چھوٹے  بڑے کئی شہروں کی سیر کی جن میں کولمبو،نیگامبو،کینڈی،ہیٹین اور نلاتھانیا ہ  شامل تھے   ۔سری لنکا وہ ملک ہے کہ جس میں کچھ عرصہ  پہلے تک افراتفری  کا دوردورہ تھا۔ ملکی حالات  صحیح نہیں تھے ۔بم  دھماکےاور   خودکش حملے عام تھے۔ ملک کا ایک حصہ تقریبا ملک سے کٹاہوا  تھا ،جاوا میں تامل ناڈو باغیوں کی حکومت تھی۔ حکومت اور باغی ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکارتھے۔جس طرح   پاکستان میں  طالبان اور  فوج ایک دوسرے کے خلاف  برسرپیکارتھے۔ اب حالات ٹھیک ہیں اور سری لنکا کی حالت دیکھ کر بندے کو رشک آتاہے۔ پاکستان  اور سری لنکا کی کچھ خصوصیات  ایک جیسی ہیں جیسا کہ پاکستان کی طرح سری لنکا بھی ایک کثیرللسانی ملک ہے جس میں کئی لسانی قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں ،پاکستان کی طرح  سری لنکا بھی کثیرالمذہبی ملک ہے جس میں کئی مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔ پاکستان کی طرح سری لنکا پر بھی مذہبی رنگ غالب ہے  اور سب سے بڑی مماثلت یہ ہے پاکستان اور سری لنکا دونوں ترقی پزیرملک ہیں  اس لیے میں سری لنکا میں گزارے ہوئے چند دنوں کی اپنی مشاہدات آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں امید ہے یہ مشاہدات آپ کو بھی پسند آئیں گے۔

سری لنکا کے شہریوں کی حب الوطنی :

سری لنکا میں گزارے ہوئے چند دنوں کے دوران مجھے یہ دیکھ کر حیرانی کے ساتھ ساتھ خوشی بھی  ہوئی کہ لوگ اپنے ملک سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔اپنے حکومتی نظام سے خوش ہیں تمام  ملکی اثاثوں  کو اپنا اثاثہ  سمجھتے ہیں۔ ملکی سطح پر بننے والی اشیاء  پر فخر کرتے ہیں اور معیاری نہ ہونے پر انہیں  ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ہیٹین سٹی  میں ایک خوب صورت  جھیل کی سیر کی ،اس دوران گروپ کے ایک دوست نے جھیل کے ساتھ لگے ہوئے سلاخوں  (fence) کےاوپر کھڑے ہوکر تصویر کھنچوانے کی کوشش کی تو ایک عمر رسیدہ خاتون نے جس کی عمرتقریبا  ۶۰سے ۶۵سال ہوگی، وہاں سے گزررہی تھی  نے  ہمارے دوست کو ایسی ڈانٹ پلا دی  کہ ہم حیران رہ گئے۔ ” یہ تمہارا ملک نہیں ہے یہ سری لنکا ہےبہت بری بات ہے سلاخوں سے نیچے اترو”۔اس بوڑھی عورت کو یہ تو پتہ نہیں تھا کہ ہم کہاں کے ہیں لیکن اس کو یہ یقین تھا  سری لنکا کا  کوئی شہری  ایسی حرکت نہیں کرسکتا

سیاحوں کے ساتھ رویہ:

سری لنکا   کے لوگوں کی ایک اہم خصوصیت یہ دیکھنے میں آئی  کہ وہ سیاحوں کے ساتھ بہت دوستانہ رویہ رکھتے ہیں۔ کہیں جاتے   یا  آتے وقت ان کا رویہ سیاحوں سے بہت اچھا  ہوتاہے۔ ہماری  طرح سیاحوں کو   گھورنے کی عادت ان کی بالکل نہیں ہے  ۔ بے جا کسی کے اوپر شک نہیں کرتے۔ بلاہ وجہ کارڈ /پاسپورٹ دیکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ہوٹل والے بے جا اصرار نہیں کرتے ۔ شروع میں ایک دفعہ کارڈ  یا پاسپورٹ دیکھایا اور  انٹری کردی  بات ختم ۔پھر ملک کے اندرکہیں جاتے یا  آتے ہوئے  انٹری کا رواج نہیں ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں سروس کارڈ دیکھنے کے بعد سکیوریٹی والے پوچھتے ہیں کہ کیا کام کرتے ہوں۔ لواری ٹنل سے چترال آتے ہوئے پانچ منٹ شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد پوچھتے ہیں کہاں جارہے ہوں؟ سری لنکا میں ٹرانسپورٹ  کا انتظام حکومت کے ہاتھ میں ہیں ۔ گورنمنٹ کے ٹرانسپورٹ اداروں میں پبلک کے ساتھ اداروں کے اہلکاروں کا سلوک بہت اچھا ہے ۔ سیاحوں کا خاص خیال رکھاجاتاہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ  اور گورنمنٹ ٹرانسپورٹ اداروں میں ٹکٹ کا نظام عام ہے۔ ٹکٹ لینے کے بعد  ریلوے سٹیشن میں اندر جانے کی اجازت ملتی ہے ،ٹکٹ لیا سٹیشن کے ا ندر داخل ہوگئے۔ اس کے بعد کوئی ٹکٹ چیکنگ نہیں ہے۔ کہاں جانا ہے۔ ٹکٹ کہاں کا کاٹا ہے مقررہ اسٹیشن پر اترا کہ نہیں ۔ کوئی آپ کا ٹکٹ چیک نہیں کرے گا۔

وقت کی پابندی :

ہم نے سری لنکا  میں ہمارا سفر زیادتربس میں ہوا۔ بسیں  بہت پرانی ہیں ۔ بہت کم مقامات کیلئے اے سی بسیں  دستیاب ہیں۔ بسوں میں رش بھی زیادہ ہے۔ سری لنکا میں چلنے والی ان بسوں کا موازنہ اگر پاکستان سے کریں  تو سہولیات کے حوالے سے ہم ان سے بہت آگے ہیں ۔ لیکن جب ہم اصول نظم و ضبط کی بات کریں تو ان کی ہم برابری نہیں کرسکتے۔ کوئی شورشرابہ نہیں جو وقت مقرر ہے اس وقت روانہ ہوگی ۔ ٹکٹ بس میں ہی آپ سے جگہے کا پوچھ کر دیں گے۔ ہر اسٹاپ پر آواز دیکر مسافروں کو جگہے کے بارے میں بتائیں گے۔

مذہبی ہم اہنگی:

سری لنکا میں بدھ مت  کے پیروکاروں  کی آبادی زیادہ ہیں۔ ہرجگہ بڑے بڑے بدھا استادہ نظر آئیں گے ۔ لوگ بھرے بازار گلی کوچوں میں ہاتھ جوڑے بتوں کے سامنے کھڑے ہوئے آپ کو ملیں گے۔ لیکن جگہ جگہ مسجد اور مندر بھی آپ کو نظرآئیں گے۔ راہ چلتے ہوئے مسلمان بھی مل جائیں گے۔ وہ بھی اپنے ملک میں خوش ہیں۔ ٹرین میں ایک مسلمان  سری لنکن سے ملاقات ہوئی ۔ جب ہم آپس میں اردو بول رہے تھے تو ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے سوال کیا کہ آپ لوگ تبلیع کیلئے آ ئے ہوئے ہیں؟۔ وہ بندہ تبلیع کیلئے لاہور ،کراچی تک آیا تھا ۔ گپ شپ ہوئی اپنے ملک سے مطمئن نظرآ یا۔ ہمیں بھی کچھ مسجدوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر ایک مسجد کے ساتھ کمیونٹی سنٹر بھی بنے ہوئےہیں۔ لیکن کوئی گارڈ یا سکیوریٹی کےلیے کوئی بندہ موجود نہیں تھا۔

مذہبی شخصیا ت ،حاملہ خواتین  اور خصوصی  افراد کےلیے مخصوص  نشست :

 بس اور ٹرین میں مذہبی لوگوں ،حاملہ عورتوں اور خصوصی افراد کیلئے الگ سیٹیں مختص ہیں۔ ٹرین میں اور بسوں میں  سیٹوں کے اوپر لکھے ہوئے ہیں یہ  سیٹیں مذہبی لوگوں کیلئے ہیں، یہ  حاملہ عورتوں کیلئے ہیں اور یہ خصوصی افراد کیلئے ہیں۔  پبلک ان  کی عزت بھی کرتے ہیں اور خیال بھی رکھتے ہیں۔

 سری لنکا کے عوام مذہب سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ خاص کر بدھ مت  کے پیرو کار اپنے مذہبی لوگوں کی بہت عزت کرتے ہیں۔ میں نے اپنے قیام کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ وہ اپنے مذہبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے ادب اور احترام سے پیش آتے ہیں۔ یہ پوچھنا مناسب نہ سمجھا  کہ اس کلرجی سے صرف بدہ مت والے مراد ہیں یا ہر ایک مذہبی پیشوا کو یہ سہولت حاصل ہے۔ جاری ہے۔

Print Friendly, PDF & Email