سی پیک کےمعاشی فوائداورہماری کھوشناخت

اس  سے پہلے انہی صفحات پر سی پیک کے علاقے پر ثقافتی اثرات اور ہماری شناخت پر بات  کی گئی تھی ۔ آج ہم سی پیک سے جڑے ہوئے معاشی  وسائل اور ان سے مقامی لوگوں کے فائدہ اُٹھانے کی بات کریں گے۔تاکہ ہماری شناخت اور پہچان ترقی کے ساتھ بھی برقرار رہےاور ہم آنے والے وقت  کا ادراک کرکے   ان کو بہتر طور پر استعمال کرنے کے لیے  اپنی منصوبہ بندی کرسکے۔جب ہم آنے والے وقتوں کے لیے سی پیک سے  جڑے ہوئے وسائل کو سمجھ کر منصوبہ بندی کے تحت  صحیح طریقے سے  پیش بندی  کریں گے تو علاقے کی  معیشت مقامی لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی۔ جب مقامی مارکیٹ اور معیشت مقامی لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی تو  ہماری علاقائی ، تہذیبی، ثقافتی اور زبانی شناخت  غیر چترالیوں سےبہت  کم متاثر ہوگی ۔اس طرح ہم  آنے والے  جدید اور تیز دور میں اپنی ثقافت اور  شناخت کو  برقرار رکھ کر  ترقی یافتہ لوگوں کے صف میں شامل ہونگے۔

چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور اور چترال

 سی پیک سے جُڑے ہوئے وسائل

زمین: وسائل کی جہاں تک بات ہے ۔تو ہماری زمین  اس میں پہلے نمبر پر آتی ہے سی پیک کے معاشی وسائل سے فائدہ اُٹھانےکے لیے ابھی سے اپنی زمین کو استعمال کرنے کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی ہونی چاہییے۔ لواری ٹاپ سے شروع ہوکر واخان تک ایک وسیع علاقہ ہمارے پاس موجود ہیں۔ جب سی پیک کا متبادل روڈ بنے گا تو یہ علاقہ سونا اگلنا شروع کرے گا۔ یعنی کہ ہوٹل ،ہسپتال، ورکشاپ،راشن شاب، گودام، آڈے  اور مارکیٹ بنیں گے ۔ جب ہم اپنی زمین کی حفاظت کریں گے  تو ان ساری کاروربار کی ملکیت ہمیں مل جائیگی۔

افرادی قوت: سی پیک کے معاشی فوائد سے فائدہ اُٹھانے کے لیےہمارے پاس  دوسرا  بڑا ذریعہ افرادی قوت کی شکل میں موجود ہے۔ ہمارے پاس عام کارکن سے لیکر تعلیم یافتہ  نوجوانوں تک کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ۔ ان کی تربیت جدید  انداز سے کرکے  ہم اپنے وسائل  کو زیادہ سے زیادہ اپنے قابو میں لانے کے اہل ہونگے  ۔ کیونکہ سی پیک کے معاشی وسائل سے فائدہ اُٹھانے کے لیے روایتی  تعلیم  سے نہیں بلکہ ہمیں  اپنے اب کو جدید ماکیٹ  وییلو کے مطابق ڈھال کر  فائدہ حاصل کرسکیں گے ۔

ہوٹل: سی پیک کے متبادل روڈ چترال کی طرف آنے سے ہوٹل انڈسٹری میں انقلاب آئے گا۔چترال کے ساتھ لنک روڈ کے  بین الاقوامی معیار کے مطابق بننے سے پاکستان کے بڑے شہروں سے چترال کا فاصلہ ناقابل یقین حد تک کم ہوجائے گا ۔ جس  سے چترال میں سیر وسیاحت اور تجارت کےلیے آنے والوں کی تعد اد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ ابھی تک رابطہ سڑک  نہ ہونے کی وجہ سے چترال ایک سیاحتی مقام کے لحاظ سے لوگوں  کی نظروں سے اوجھل رہاہے ۔ اس لیے آنے والے وقت میں   ہوٹل انڈسٹری کو اپنے ہاتھ میں  رکھنے کے لیے ابھی سے  تیاری کی ضرورت ہوگی۔

ٹرانسپورٹ: اس متبادل روڈ کا ایک معاشی فائدہ  یہ ہوگا  اس سے چترال میں  ٹرانسپورٹ میں روزکار کے مواقع میسرآئیں گے۔ مال برداری سے لیکر سیاحوں  تک کے لیے  اچھی ٹرانسپورٹ سروس کی ضرورت ہوگی ۔ جسے لوگ اپنے مرضی کے مطابق علاقے کی خوبصورت وادیوں تک رسائی کیلئے   استعمال کریں۔ ابھی تک چترال میں کوئی بھی ایسی ٹرانسپورٹ کمپنی میسر نہیں ہے جو باہر سے آنے والوں کو اچھی سروس مہیاکرسکے۔ ہمارے جو روایتی ڈرائیور حضرات ہیں یہ مسافر سے زیادہ اپنے مرضی پہ چلتے ہیں۔

مقامی صنعت کی ترقی: جہاں پر لوگوں کا آناجانا ہوگا تو وہاں ویسے بھی کاروبار زندگی کے چھوٹے موٹے مواقع میسر آئیں  گے۔   اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے مقامی پراڈکٹ کو انٹرنیشنل معیار کے مطابق بناکر مارکیٹ میں لانا ہوگا۔ مقامی پراڈکٹ کو مارکیٹ کا راستہ دیکھاکر ہم اپنے لیے ضروریات زندگی کا سامان کرسکتے ہیں۔مقامی پراڈکٹ  کی ایک مثال  گلکت بازار میں چومس کی ہے  ۔ چومس (چمبوروغ یعنی خشک خوبانی کا جوس) جو ہمارے ہاں بھی بہت مشہور ہے لوگ گھروں میں بناتے ہیں اور پیتے ہیں۔  گلگت میں جوس بیچنےوالے  دوکانداروں نے  مارکیٹ کے ڈیمانڈ کے مطابق صاف ستھرے طریقے سےبناکر   جوس کے طور پر پیش کیا۔ جو ہر جوس پوائنٹ پر دسیتاب ہے ۔ مقامی اور غیر مقامی لوگ بہت شوق سے یہ  جوس پیتے ہیں ۔ اس طرح ہمارے ہاں اور بھی بہت صحت مند مقامی کھانے ، جوس موجود ہیں جس کو مارکیٹ  ڈیمانڈ کے مطابق ڈھال کر ہم اپنے لیے روزگار کا ذریعہ بناسکتے ہیں۔

ان ساری   باتوں کا مقصد صرف یہ ہےکہ ہم جدید  دنیا کی سہولیات سے فائدہ بھی اٹھائیں اور اپنی شناخت اور پہچان  کو بھی برقرار رکھیں ۔سی پیک سے جوڑے ہوئے مواقع سے مقامی لوگ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور باہر سے آنے والے کاروباری حضرات کے لیے کم سے کم مواقع میسر ہوں تو ہماری پہچان اور شناخت برقرار رہ سکتی ہے ورنہ اگر ہم ہاتھوں میں ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور مارکیٹ میں اجارہ داری باہر سے آنے والوں کی ہوں تو یقینی بات ہے ہم اپنے علاقے اپنے گھر میں محکوم ہونگے ۔ ثقافت اور زبان کبھی بھی محکوم لوگوں کی ترقی نہیں کرسکتی ۔ زمانے میں وہ ثقافت اور زبان ترقی کرتی ہے ۔ جس کے رکھوالے ایک آزاد  اور خودمختار ماحول میں زندگی گزار رہے ہوں۔ ورنہ چترال کے کچھ علاقوں کی مثال ہمارے سامنے ہے  اس علاقے میں آنے کے بعد ہمیں نہیں لگتا کہ ہم چترال کے کسی علاقے میں ہیں ۔لگتایہ ہے کہ ہم ابھی شبقدر یا سواتی گیٹ کے علاقے میں ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے