کشکور میں آبادکاری

کشکور ایک علامتی علاقے کا نام ہے، جو دنیا کے قدیم آباد انسانی آبادی والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ حقیقی اور واقعاتی تاریخ اس حوالے سے خاموش نظر آتی ہے کہ کشکور میں انسانی آبادکاری کب اور کیسے شروع ہوئی، اور تہذیب کیسے پروان چڑھی۔ البتہ افسانوی تاریخ میں ہم یہ مان سکتے ہیں کہ علاقہ کشکور کسی وقت  مختلف ریاستوں اور Principalities  کے لئے راستے اور درّے فراہم کرتا تھا۔  یہی وجہ ہے کہ اسی علاقے سےلوگوں کی آمدورفت رہتی تھی۔ جنگی یا تجارتی مقاصد سے جو قافلے یا انسانی گروہ یہاں سے گزرتے تھے ظاہری بات ہے وہ طویل سفر طے کر رہے ہوتے تھے۔ ان میں سے دورانِ سفر جو افراد چلنے پھرنے کے قابل نہ رہتے یا کسی حادثہ و آفت کی وجہ سے زخمی ہو جاتے تو بامرِ مجبوری وہ کشکور میں ٹھہر گئے۔ یوں کشکور میں انسانی آبادکاری شروع ہوگئی۔ یہاں افسانوی تاریخ اس بات کو ثبت کرتی ہے کہ علاقہ کشکور انسانی قافلوں سے پیچھے رہ جانے والوں کی سرزمین ہے۔

افسانوی تاریخ کی رو سے کشکور میں آبادکاری کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ قدیم زمانوں میں چونکہ مختلف ریاستیں اور Principalities آپس میں دست و گریباں رہتی تھیں، اور رعایا ہمیشہ حکمرانوں کی جنگی مہمات میں قربانی کابکرا بن جاتی تھی۔  ایسے لوگ جنگوں سے تنگ آکر مشکل علاقوں کا رُخ کرتے اور وہاں جاکر آباد ہوجاتے۔ ایسا ہی ایک دور دراز اور مشکل علاقہ کشکور بھی تھا، جو دوسرے اقوام کے لئے بغرضِ آبادکاری کسی بھی صورت پرکشش نہیں تھا۔ جنگوں اور مظالم سے مجبور لوگ ہی کشکور میں آکر آباد ہوگئے۔  افسانوی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ کشکور مجبور اور حالات سے مقابلہ نہ کرسکنے والے لوگوں کی سرزمین ہے۔

تیسری وجہ کشکور میں آبادکاری کی یہ تھی کہ آس پاس کے مختلف ریاستوں اور علاقوں میں ظاہری بات ہے سارے فرشتے آباد نہیں تھے۔ وہ انسان تھے۔ اگر انسان تھے تو ظاہری بات ہے کہ اُن میں سے کچھ بُرے بھی تھے، جو جرائم پیشہ تھے، لٹیرے تھے، ڈاکو اور قاتل تھے۔ اب چونکہ ان ریاستوں کی شخصی حکومتوں میں قوانین و روایات (Conventions)  بہت سخت ہوتے تھے۔ رعایا کو آسانی سے قانون شکنی کی سہولیات اور مراعات دستیاب نہیں ہوتی تھیں (جیسے آجکل کے جمہوری اور مہذب دور میں ہوتی ہیں)۔ یہی وجہ تھی کہ رعایا میں کسی سے کوئی جرم سرزد ہو جاتا تو دو  باتوں میں سے ایک کیلئے تیار ہونا پڑتا تھا: یعنی مر جاؤ، یا بھاگ جاؤ۔ تو ظاہر ہے مرنے کیلئے تیار ہونا کوئی آسان بات نہیں ہوتی۔ پس وہ لوگ فرار ہوکے غیرپرکشش علاقوں میں جاکر رہتے تھے، جس کو آجکل کے اصطلاح میں Self-exile  کہا جاتا ہے (جو آجکل کے سیاستدانوں کا ایک محبوب مشعلہ ہے)۔  تو افسانوی تاریخ سے ہمیں یہ بھی پتہ چل گیا کہ علاقہ کشکور ایسے جرائم پیشہ لوگوں کی سرزمین بھی ہے۔

وقت گزرتا گیا، حالات بدلتے گئے، حکومتوں کی صورتیں بدلتی گئیں، تہذیب پروان چڑھتی گئی اور ایسا دور آیا کہ کشکور ایک پرکشش اور گنجان آباد علاقے کا روپ دھار لیا۔ لوگ باشعور ہوگئے، تعلیم کے مواقع ملے، حکومتیں کیں،  جاگیریں ملیں، ملازمتیں ملیں، کاروبار کئے، پیسہ ملا، status ملا۔ غرض اُن کو وہ سب کچھ ملا جس سے وہ اپنا حال    و مستقبل بدل سکتے تھے۔ اگر کچھ نہ بدل سکتے تھے تو وہ تھا ان کا ماضی۔ بڑے دلچسپ لوگ تھے ۔  اب وہ   اپنی تعلیم، معلومات، استعداد اور سہولیات کو استعمال کرکے اپنا ماضی بدلنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ ماضی کو تاریک سے روشن اور تلخ سے خوشگوار بنانا تھا۔ تو انہوں نے کیا کیا؟ ہر کوئی اپنے پردادوں کو حاکم،بادشاہ،  ولی،  درویش، پیر، نواب  یا  خان ٹھہرانے  لگ گیا۔ علی ہذالقیاس یہ ہوا کہ کشکور میں سارے نوابزادے، بزرگ زادے، شہزادے، خانزادے، حاکم زادے  اور پیرزادے آکر آباد ہو گئے تھے۔ ان میں مجبور اور مفلوک الحال کوئی تھا ہی نہیں۔ واقعاتی تاریخ نے مزید   اُن کی باتوں کو تقویت دی، اور یوں جانبدار تاریخ نگاری اور complex  انسانی رویّے کے امتزاج سے ناخوشگوار ماضی خوشگوار اور پرکشش ہوکے رقم ہوا۔

کیسے بھولے بھالے اور احمق لوگ ہیں کشکور کے باشندے بھی۔ اپنی صلاحیتوں ، استعداد اور سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے اپنا حال  و مستقبل درست کرنے کے بجائے  حال کی سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے اپنا ماضی سنوارنے اور نکھارنے کی کوششیں کرتے  رہے رہیں۔ یعنی وہ کام کرنا چاہتے ہیں  جو ان سے ہونے والا نہیں  ہے۔

 

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے