”میری شادی دلّال کی مرضی“

ہماری اپنی مظلوم عورت

یہ مضمون اُردو میں اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ ”باہر“ کسی کو پتہ نہ چلے اور ہماری عزت و ثقافت پر کوئی آنچ نہ آئے۔

میں مسکولینِسٹ یعنی ”مردانگی کا قائل“ چترالی ہوں۔ میرا یقین ہے کہ عورت مرد کی جاگیر ہے، اُس کی پراپرٹی ہے۔ عورت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اُس کی کوئی روح نہیں ہے، اُس کے کوئی جذبات و احساسات نہیں ہیں۔ بس وہ سراپا جسم ہے۔ ہاں ہاں جسم ہی ہے۔ بل کھاتے زاویوں والا گرم گوشت کا جسم۔ اُسے مرد کی یا تو غلام بن کے خدمت کرنی ہے اور یا جنسی وجود بن کے لذّت دینی ہے۔  اِن سب باتوں پر میں یقین رکھتا ہوں۔

لیکن پتہ نہیں

کیوں

آج صبح جاگ کے سر کُھجاتے کھجاتے ایک عجیب خوف دامن گیر ہوا۔ چونکہ بحیثیت چترالی انسان اور چترالی مرد یہ خوف دامن گیر ہو رہا ہے، تو آپ کے ساتھ بھی شئیر کر رہا ہوں۔

خوف کچھ یوں ہے کہ

خدانخواستہ اگر وہ ہماری ساری مظلوم بہنیں، بیٹیاں اور آنٹیاں برسرِ عام مارچ کرنے پر اتر آئیں جن کی ہم مردانگی کے قائل مردوں نے دلّال بن کر چند پیسوں یا کسی لالچ کے عوض بیرونِ چترال شادیاں کرائی ہیں اور جن کی زندگیاں ہماری مردانگی اور دلالی کی وجہ سے جہنم بن گئی ہیں؟ ہم کو پتہ ہے دلال بن کے یہ شادیاں ہم نے مدرسوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات کی کرائی ہیں اور یا گاؤں کی غریب سادہ اور ان پڑھ بناتِ حوا کی۔

اگر وہ ساری کم عمر لڑکیاں مارچ پر اتر آئیں تو کیا ہوگا جن کی شادیاں ہم نے پچاس اور ساٹھ سال کی عمر سے اوپر کے مردوں سے دوسری یا تیسری شادیوں کی صورت میں کرائی ہیں؟ سارا کچھ سمجھتے ہوئے کہ اُن کی مرضی کے بغیر یہ رشتے ہو رہے ہیں پھر بھی قرآن کی آیتیں پڑھ پڑھ کے ان کی نکاحیں ہم نے پڑھوائی ہیں۔ اگر وہ سب مارچ کرنے پہ آ جائیں تو کیا ہوگا؟

 

اگر اُن ساری معصوم چترالی عورتوں کی روحیں مارچ پر اتر آئیں تو کیا ہوگا جن کی شادیاں ہم نے دلالی کرکے پیسوں یا کسی لالچ کے عوض کرائی تھیں مگر بعد میں اُن کو سسرال والوں نے بے دردی سے قتل کیا، اور اُن کی لاشیں بوریوں میں بند کرکے واپس بھیج دیا اور ہم نے ”موت پہلے سے مقررہ حقیقت ہے“ کہہ کر چپ سادھ لی؟ اور اس مظلوم و مقتول ”جسم“ کے لیے انصاف مانگنے واسطے آواز تک نہیں اٹھائی۔

اگر اُن قتل کی ہوئی ”جسموں“ کی روحیں ہم سے یہ پوچھیں تو ہم کیا جواب دینگے کہ ”بِاَیّ ذَنبٍ قُتِلَت“؟

 

آگے سن لو

باہر سے کوئی ہوس کا سفیر ایک آفیسر، استاد، تبلیغی یا کاروباری کے روپ میں دوسری یا تیسری شادی کی نیت سے چترال آیا۔ وہ ہمارے دفتر، سکول، کالج، یونیورسٹی، مدرسہ یا دکان میں آیا اور اپنے ”نیک“ ارادے کا ہم سے ذکر کیا تو ہم نے دل و جان سے اس نیک مقصد کی تکمیل میں اُس کا پورا  ساتھ دیا۔ اور اپنے گھر میں کنواری بہنوں اور بیٹیوں کے ہوتے ہوئے ہم نے گاؤں کے کسی غریب اور ان پڑھ والدین کو الّوبنایا اور ان کی کم عمر بیٹی کی اس پچاس ساٹھ سال کے مجسم ہوس کیساتھ شادی کروا دی۔ بیاہ کے بعد چند مہینے ہوس کی تسکین کے بعد وہ ہوس کا پجاری اس نو عمر لڑکی کو اس کے میکے لے آکر چھوڑ جاتا ہے، اور چند دنوں بعد طلاق نامہ کے ساتھ مہر بھیج دیتا ہے اور نمبر تبدیل کرکے غائب ہو جاتا ہے۔ اور ہم ”یہ سب مقدر میں لکھے ہوئے فیصلے ہیں“ کہہ کر اس بیچاری ”جسم“ کو اور اس کے والدین کو باور کراکے چپ سادھ لیتے ہیں۔

اگر وہ بیٹی اور اس کا جسم اور ہاں اس کی وہ بدقسمت شیرخوار بچی جو طلاق کے بعد پیدا ہوئی ہماری مقدس دلالی اور مردانگی کے خلاف مارچ کرنے پر اتر آئیں تو ہم کدھر جائیں؟بناؤ کدھر جائیں؟

اور

ہمارے معاشرے کی وہ خواتین جن کی شادیاں ان کی مرضی کے خلاف اور والدین یا رشتہ داروں کی مرضی پر ہوئی تھیں، جس کی وجہ سے ان کی زندگیاں جہنم بنی ہوئی ہیں۔ اور ۔۔۔اور۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ زندگی سے دل لگائے رکھنے کے لیے وہ بعد از شادی دوسرے ”مردوں“ کے ساتھ تعلقات قائم کرتی ہیں، اور یوں ایک Illegitimate معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ اگر وہ ہمارے ہاتھوں ”بگڑی اور گری“ خواتین ہماری ”مرضی اور رضا“ کے خلاف مارچ پر اتر آنا چاہیں تو ہمارا کیا ہوگا؟

اور سب سے زیادہ خوف مجھے جس بات کا ہو رہا ہے وہ یہ ہے

کہ

ہمارے معاشرے کی وہ بہنیں، بیٹیاں، مائیں اور آنٹیاں جن کو ہم نے وراثت کے حقوق سے محروم رکھا۔ ان کے استحقاق کی جاگیروں پر قبضہ کرکے ہم حرام کا رزق کھاتے رہے۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ کر یقین کرتے رہے کہ ”اگر ایک لقمہ حرام کا جسم میں گیا تو چالیس دن تک کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی“۔ اس سمجھ کے باؤجود ہم ان کے استحقاق کی جاگیر اور مال پر قابض رہے۔ وہ بیچاریاں بغیر احتجاج کے غریب گھرانوں میں شادی کرکے قناعت سے غربت کی زندگی گزارتی رہی ہیں، اور ہمارے لیے ان کی محبتوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ہم ان کی جاگیروں پر قابض ہوکے جاگیردار بھی بنے ہیں کروڑ پتی بھی ہیں اور ہر سال حج و عمرہ کو بھی جاتے ہیں۔ اُن کے حقوق پر قابض ہونے کی بدولت مختلف خیراتی اداروں کو چندے بھی دیتے ہیں ”اللہ کی راہ پر خرچ“ بھی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کو تعلیم اور معیارِ زندگی اعلیٰ درجے کا دے رہے ہیں۔

اگر ۔۔۔۔ اگر ۔۔۔ خواتین کے اس محروم طبقے کو کسی طرح کسی نے جگایا اُکسایا اور وہ ساری مائیں، بہنیں، آنٹیاں اور بیٹیاں ہماری مردانگی کے خلاف احتجاجی مارچ پر اتر آئیں تو ہمارا کیا ہوگا؟

سوچیے۔

عورت مارچ کا آپ سب کی طرح میں بھی مخالف ہوں۔ لیکن عورتوں کے ان بنیادی انسانی اور اسلامی حقوق کے مخالف ہم نہیں ہو سکتے جن کو ہم نے صدیوں سے سلب کیے رکھا ہے۔

عورت ذات کی عزت کیجیے۔ کیونکہ یہ ذات جہنم اپنے اندر چھپا کے سہتی ہے مگر آپ کے لیے اپنے قدموں تلے جنت رکھتی ہے۔ یہ اعزاز مرد کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

Print Friendly, PDF & Email