کشکوری جاگیریں اور کشکوری تِکون

واقعاتی تاریخ کے آلودہ بیانیے سے پہلے زمانے کی بات ہے کہ جب علامتی ریاست کشکور میں انسانی آبادکاری شروع ہوئی اور سماج پروان چڑھتا گیا تو قبائل میں جاگیروں کی تقسیم کا مسئلہ درپیش ہوا۔ اگرچہ رنگ و نسل اور لسانی  و علاقائی الحاق کی بنیاد پر کئی ایک قبیلے اور گروہ منظرِ عام پر آئے تھے پھر بھی استعدادی اور  استحصالی تناظر سےصرف تین قبائل نمایاں ہوئے جن کے نام کچھ اس طرح سے تھے: ۱۔جاگیر پرست قبیلہ؛ ۲۔ سرمایہ پرست قبیلہ؛ ۳۔  پنڈتی یا دھرم پرست قبیلہ۔

ان تین قبائل کے زعما نے کشکوری جاگیروں کو بڑے دلچسپ طریقے سے تین کیٹیگری میں تقسیم کیا اور یوں جاگیروں کی تقسیم کا مسئلہ حل کر لیا۔ جاگیروں کے مدارج کچھ اس طرح رکھے گئے: ۱۔ پیداواری جاگیریں،  ۲۔ہوَ سی جاگیریں،  ۳۔ جذباتی جاگیریں۔

فیصلے کے مطابق پیداواری جاگیریں جاگیر پرست قبیلے کو سونپی گئیں، ہوسی جاگیریں سرمایہ پرست قبیلے کے حصے میں آ گئیں اور جذباتی جاگیریں پنڈتی یا دھرم پرست قبیلے کی ملکیت میں دی گئیں۔ ان تینوں قبیلوں میں ایک ہی چیز مشترک تھی جو اُن کا طریقۂ واردات تھا۔ تینوں قبیلے اپنے ساتھی انسانوں کا استحصال چاہتے تھے اور ان کو کسی طریقے سے زیر کرنا ان کا ultimate مطمعِ نظر تھا۔ اس نیک مشن کی تکمیل کی غرض سے اگر جاگیر پرست قبیلہ اپنی پیداواری جاگیر کے بل بوتے پر لوگوں کو زیر کرتا، تو  سرمایہ پرست قبیلہ اپنے کشکوری سرمایہ (ہوَسی جاگیر) کی بنیاد پر استحصال کا بازار گرم کرتا۔ پنڈتی  یا  دھرم پرست قبیلہ بھی ہر گز پیچھے نہیں تھا وہ غیر محسوس طریقے سے اپنی جذباتی جاگیر کے طفیل کشکوری رعایا کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتا رہتا تھا جس سے ان کی غیر مرئی جاگیر میں خاطرخواہ  توسیع ہوتی رہتی تھی۔ افسانوی تاریخ کے تنقیدی بیانیے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان تین استحصالی قبیلوں کے درمیان مفادات کے ٹکراؤ کی نوبت آگئی۔ اس ٹکراؤ سے دوسری کشکوری رعایا، جو تعداد میں ان تین قبائل سے زیادہ تھی، خاطرخواہ فائدہ لے سکتی تھی۔ اب چونکہ ان تین قبیلوں کے زعما خودغرضانہ طور پر دور اندیش اور سُرخ بصیرت والے تھے لہذا مسئلے کا بروقت حل نکالا گیا۔ حل یہ تھا کہ "سیاہ ست” سے کام لیا جائیگا۔ سیاہ ست سے مراد  اُن کا یہ تھا کہ وہ تین قبیلے باری باری کشکوری رعایا کا استحصال کرتے رہیں گے،ہر قبیلہ اپنی باری کا انتظار کریگا اور دوسرے دو قبیلوں  کے طریقہ ہائے استحصال و واردات کی راہ  میں رکاوٹ نہیں بنے گا، بلکہ جہاں گنجائش ہو ان کو facilitate  کرے گا۔ بظاہر ایک دوسرے کے خلاف گالی گلوچ اور فتاوی و نعروں سے کشکوری رعایا کو گمراہ کیا جائیگا، لیکن دل ہی دل میں ایک دوسرے کیلئے احترام اور ہمدردی کے جذبات رکھے جائینگے، تاکہ استحصالی پہیّہ ان تین قبیلوں کے درمیان ہی گھومتا رہے۔

نتیجتاً یہ ہوا کہ ہر قبیلہ اپنی باری میں کشکوری رعایا کاخوب استحصال کرتا رہا اور دوسرے بظاہر حریف قبیلے کشکوری رعایا کے ساتھ مل کر اس اجارہ دار قبیلے کے خلاف گالی گلوچ کرتے رہے، حالانکہ اندرونی طور پر  وہ تینوں قبیلے ایک دوسرے کے ہمدرد تھے اور ایک دوسرے کی پیٹھ کھجاتے تھے۔

علی ہذالقیاس یہ ہوا کہ ان تین قبیلوں کا تکون  (Troika)  مضبوط ہوگیا اور عام کشکوری کے  لیےاُن کا ہم پلہ بننا ایک خواب بن کر رہ گیا۔ پنڈتی یا دھرم پرست قبیلے کے زعما نے مزید یہ کہہ کر  کشکور کے رعایا قبیلوں  پر مہرِ ذلّت ثبت کر دیا کہ حکمرانی و اجارہ داری اُلوہی دین ہے، یزدانی و تقدیری عنایت ہے، جو  چند ایک گنے چنے لوگوں اور قبائل کو ہی مل سکتی ہےاور انسان جتنا بھی چاہے تقدیر کے مسلّم و مصدّق فیصلوں میں ترمیم و تبدّل نہیں کرسکتا۔ یوں اس طرح کے بیانیے سے نہ صرف اجارہ دار قبیلوں کی مرئی جاگیروں میں اضافہ ہوتا گیا بلکہ پنڈتی قبیلے کی غیرمرئی جاگیر بھی پروان چڑھتی گئی اور کشکوری رعایا ایک جذباتی طور پر شکست خوردہ قوم بن گئی۔ ایسے بیانیوں کا دور رَس اثر ایسا ہوا کہ کشکوری عوام بعد میں خوشحال ہونے کے باوجود بھی نفسیاتی و جذباتی طور پر ان تین قبیلوں کے زیرِ تسلّط رہے اور ان قبیلوں کے بنائے گئے سماجی سانچوں میں خود کو بے بس و لاچار پایا۔

پھر جب واقعاتی تاریخ کا آلودہ بیانیہ سامنے آیا تو وہی استحصالی طریقہ ہائے واردات  اور سماجی ڈھانچے محترم و مقدّس ٹھہرے پھر یوں ہوا کہ انہی قبائلی و سماجی ڈھانچےکے اوپر حالات کا پہیّہ گھومتا رہا اور عام لوگ تھے کہ پِسے ہی جارہے تھے۔ ذلّت و رسوائی و استحصال کو وہ اپنے عقیدے کا مقدّس حصّہ سمجھ رہے تھے۔ یہ سمجھنے سے وہ  بالآخر قاصر ہی رہے کہ دوسرے قبائل اُن کی ذلتّوں کے ڈھیر سے اپنے لیے عظمتیں اور آسائشیں سمیٹ رہے تھے۔

Print Friendly, PDF & Email

تبصرہ

  1. Hamid Ahmad Mir

    Excellent narrative.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے