سوشل میڈیا اور معاشرتی مسائل

کچھ مہینوں سے میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تاکہ متعلقہ لوگوں کی آنکھ کھلے اور معاشرے کا اصلاح ہو سکے ۔جس کے بعد کافی دوستوں نے ناراضگی کا اظہار کیا اور بعض  نے حوصلہ افزائی بھی  کی اور میری ان  کاوشوں کو سراہا۔

میں تنقید کرنے والوں کی پرواہ بالکل بھی نہیں کرتا کیونکہ میں حق کی بات کرتا ہوں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ صرف چپکے سے سراہنے کی حد تک محدود رہا ۔ جس مقصد کے لیے میں نے یہ سب کچھ کیا وہ پورا نہیں ہو سکا۔ کچھ وجوہات جن کی وجہ سے میں آج اکتا گیا ہوں اور مجھے لگ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے کا اصلاح نہیں ہو سکتا۔وہ میری نظر میں یہ ہیں ۔

جب میں نے ایک فرد کے بارے میں ایک تجویز تحریر کی تو ایک مہینے تک جو بھی مجھ سے ملا میری تعریف کی کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا لیکن وہ خود اس کے بارے میں کچھ لکھنا تو دور کی بات سوشل میڈیا میں میرے حق میں ایک لفظ تک  نہ لکھ سکے کیونکہ ایسا کرنے سےمذکورہ صاحب ان کو بھی نہیں بخشیں گے۔حق کی بات کر کے گالی سننے سے بہتر تھا کہ چپ رہ کر ضمیر کو بے حسی کی نیند سلا دیا جائےاور تو اور میرے پوسٹ کے سکرین شاٹس بنا کر میرے کچھ دوستوں نےاس صاحب کو بھی بھیج دئیے جن کو میں "سلام” کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں۔

اس کے علاوہ  ہمارے معاشرے کے صاحب علم لوگ اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ کسی عام شخص کے پوسٹ پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کریں گے۔ چاہے وہ سو فیصد حق کی بات کیوں نہ ہو کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی عزت خدانخواستہ کم ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔

اس حوالے سے ایک اور بات بھی ہے کہ  اگر میرا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے ہے اور میرا پارٹی کسی غلط کام حصہ ہے کچھ بھی ناجائز کر رہا ہو تو کوئی بات نہیں کیو نکہ وہ میری پارٹی ہے۔ ہاں البتہ کسی دوسری پارٹی نے غلط کام نہیں کرنا ہے۔ اگر کیا تو میرا حق بنتا ہے کہ میں طوفان بدتمیزی برپا کروں اور دوسری  پارٹیز جو بھی اچھے کام کریں وہ تسلیم نہ  کروں ۔ اس پر افسوس کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔

باتیں بہت ساری ہیں جن کو لکھوں تو شاید  ایسے  لوگ بھی ناراض لوگوں کے صف میں شامل ہو جائیں اور کوئی فائدہ بھی نہ ہو۔ میں ان تمام دوستوں اور عزیزوں سے معذرت خواہ ہوں جن کو حق  بات سننے سے تکلیف ہوئی ہو۔

کسی بھی معاشرے کا زوال تب شروع ہوتا ہے جب اس معاشرے کے لوگوں میں احساس ختم ہو جاتی ہے۔اللہ ہم سب کو حق کی بات کہنے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email