وسطی ایشیاء اور ہندوستان کا تجارتی راستہ چترال

قدیم زمانے سےوسط ایشیاء اور ہندوستان کے درمیان تجارت جن راستوں سے ہوتی تھی ان میں سے ایک مصروف راستہ یارقند چترال پشاور کا تھا۔ یہ دیگر راستوں کے مقابلے میں آسان اور مختصر لیکن چترال کی جنوب میں باشگلی (موجودہ نورستانی) لوگوں کی لوٹ مار کے سبب کسی قدر غیر محفوظ تھا۔ 1895 میں اس علاقے پر انگریزوں نے کنٹرول حاصل کیا تو راستوں کو محفوظ بنایا۔ اس کے نتیجے میں اس روٹ پر تجارت میں بہت تیزی آئی۔ یہ سلسلہ کوئی چالیس سال تک جاری رہا جب افغانستان نے پامیر خورد میں اپنی پوزیشن مطبوط کی اور رفتہ رفتہ اس روٹ کو بند کردیا۔ اس روٹ پر دونوں سمتوں میں بہت سی اشیاء کی تجارت ہوتی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تجارت افیوں اور چرس کی تھی۔ پشاور سے افیوں یارقند کو بھیجی جاتی تھی جو اگے چین تک جاتی اور یارقند سے زیادہ تر چرس آتی تھی۔ اس زمانے میں ان دونوںاشیاء کی تجارت قانونی تھی۔ 1935 کے لگ بھگ اس روٹ پر تجارت ختم ہونے کے قریب ہوگئی اور اس کے نتیجے میں ریاست کو تجارتی محصول کی شکل میں ملنے والی امدنی بھی بہت کم رہ گئی۔ اسی زمانے میں چترال میں چرس کی کاشت شروع ہوئی جو آگے چل کر ایک بڑی نقد آور فصل ثابت ہوگئی۔ رفتہ رفتہ چرس پر محصول اتنا بڑھ گیا کہ اس کی دوسرے علاقوں کو برامد منافع بخش نہیں رہی۔ ان حالات میں دشوار پہاڑوں جیسے بشقار گول کے راستے سوات کو چرس کی سمگلنگ شروع ہوئی جو 1970 کی دہائِی میں سوات میں پابندیاں سخت ہونے سے بالآخر ختم ہوگئی۔ اور اس کے ساتھ چترال میں چرس کی کاشت بھی۔
چترال کے علاقہ دروش کے گورنر مرحوم شہزادہ حسام الملک لکھتے ہیں کہ انہوں نے 1937 میں تجارتی مذاکرات کے لیے کابل کا دورہ کیا تو وہاں سے اپنے ساتھ چرس کا بیج لے کر آئے۔ اس بیج کو پہلے دروش میں کاشت کرکے اس سے مزید بیج پیدا کیا اور اسے مہتر چترال محمد ناصر الملک کو پیش کیا جنہوں نے اسے بالائی چترال کے کسانوں کو کاشت کے تقسیم کیا۔ اس طرح چترال میں چرس کی کاشت کا رواج ہوا۔ شہزادہ صاحب کے مطابق انہوں نے اس سلسلے میں علماء سے بھی مشورہ کیا جنہوں نے اسے جائز قرار دیا۔
Zeal Policy
Print Friendly, PDF & Email