مت سہل ہمیں جانو!

کسی بھی زمانے میں لکھنے والا اپنے وقت کا نبض شناس ہونے کے ساتھ اپنے معاشرے کا چہرہ بھی ہوتا ہے وہ زمانے کو وقت کی قرطاس پر قلم سے پینٹ کرتا ہے، معاشرے کے اچھے اور برے پہلوؤں کو دیکھتی آنکھوں اور احساس کرنے والے شعور کے ساتھ کاغذ کے صفحات میں لے آتا ہے۔وہ اپنے معاشرے کی سماجی ،سیاسی،معاشرتی اور مذہبی اثرات کے زیر اثر ہوتا ہے۔اس لیے سچے قلم کار کا قلم کبھی بھی معاشرتی مسائل سے رو گردانی نہیں کرتا۔ زیل کے صفحات میں ایسے ہی لکھاریوں کے قلم کی پکار آپ کو سنائی دے گی اور زیل ایسے ہی قلم کاروں کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرے گا۔ جس میں آکے وہ اپنی کیتھارس کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل پر کھل کر اظہار خیال کرسکیں گے۔یہاں ایسے لکھنے والوں کو خوش آمدید کہا جائے گا جو جراتِ اظہار کی دولت سے مالا مال ہونگے جو کسی کی انگلی تھامے چلنے کو اپنے لیے باعث عار سمجھیں گی اوریہاں کے لکھنے والے اپنے روشن ضمیر کے ساتھ اپنے خوبصورت ماضی سے آشنا ہونگے اور پر امید مستقبل کے نقیب ہونگے۔
یہ نئی نسل سچ کو مصلحت کی آنچ میں پکا کے پیش کرنے کی بجائے اس کا اظہار بے دھڑ ک کریں گے۔یہ نسل بنیادی انسانی حقوق کے پرچار ک ہونگی۔یہ نوجوان لکھاری غلاظت کے پاس سے آنکھیں بند کرکے نہیں گزریں گے۔یہ صرف اس غلاظت کی طرف اشارہ کرکے کسک بھی نہیں جائیں گے بلکہ ان غلاظت کے ڈھیر کو صاف کر کے اس ڈھیر میں گلاب کے پھول اْگائیں گے اور پھر ان پھولوں کی حفاظت کو اپنی زندگی کا روگ بنائیں گے۔
یہ نوجوان لکھاری معاشرے میں پھیلے ہوئے تضادات ،سماجی گھٹن اور انسانیت کی بے قدری پہ آزردہ ہونگے اور اس کے خلاف بھی قلم کے ذریعے صدائے احتجاج بلند کریں گے۔ نوجوان لکھاری نئی صبح کے روشن اور تروتازہ سورج کی مانند ہوتا ہے ،وہ مصلحتوں سے نا آشنا اور مفادات سے بے نیاز ہوئے قلم کا سفر جاری رکھتا ہے اور یہ سفر کھبی رائیگان نہیں جاتا۔یہ لوگ کسی مخصوص گروہ کے لالچ اور اقتدار میں آلہ کار نہیں بنتے ۔ اسے لیے ان قلم کاروں ایزی نہیں لینا۔ خدائے سخن میر کی زبان میں اگر بات کریں تو یوں ہوگا۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہم تاریخ کے نازک موڑ سے گزر رہے ہیں۔ہمیں نہیں معلوم کہ یہ موڑ نازک ہے یا مضبوط، ہاں ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ جب اس عہد کی تاریخ لکھی جائے گی تو ہم زمانے کے مورخ کے سامنے شرمندہ نہ ہو۔ اس لیے ہم سچائی کا ساتھ دیں گے۔ہم دن کو دن اور رات کو رات کہیں گے اور یہ امید بھی رکھیں گے کہ ہر انسان کو سچائی کے مکمل اظہار کی اجازت ہو۔

Print Friendly, PDF & Email