دو سوالات

یہ مئی 2015ء کی بات ہے، دوستوں کے ساتھ گب شپ میں دو سوالات اٹھے، سوالات سادہ تھے مگر جوابات مشکل، پہلا سوال تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں یو سی چترال 1 سے کون جیتے گا ؟؟ لوگ کس بنیاد پر امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں؟چونکہ بلدیاتی انتخابات نزدیک تھے ان سوالات کے جواب آسان نہیں تھے۔ ہم نے ایک چھوٹی سی تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے ساتھ اس وقت کے عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کے لیکچرر کاشف قادر صاحب تھے، انہوں نے چند نوجوانوں کے ساتھ ڈیٹا جمع کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ یونین کونسل چترال1 کے تمام دیہات کو ہم نے اپنے sample میں شامل کیا اور ہر گاؤں کی آبادی کے تناسب سے گھرانوں کی تعداد متعین کیے۔ ڈیٹا جمع کرنے میں پانچ دن لگے۔ ڈیٹا جمع کرنے والے نوجوانوں نے بتایا کہ صرف دو گھرانوں نے interviewدینے سے انکار کیا۔21 مئی کو ڈیٹا ہمارے پاس پہنچ چکا تھا۔ ہم نے اس رات دس بجے برادرم ساجد حنیف کے گھر میں پروگرام رکھا۔ data analysisکی اور نتائج حاصل کرکے اپنے پاس محفوظ کیں۔ ہم سات دوست تھے ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ دونوں نتائج الیکشن تک کسی کے ساتھ share نہیں کرینگے۔ ہمارے سروے کے مطابق مولانا جمشید بھاری اکثریت سے جیت رہے تھے اور سیاست کے میدان میں پہلی مرتبہ قدم رکھنے والے قاضی فیصل سعید دوسرے نمبر پہ تھے۔ اس سروے سے ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ چترال ٹا ؤن کے 40فیصد عوام اپنا ووٹ دینی بنیادوں پر دیتے ہیں اور 10فیصد گھرانے بلدیاتی انتخابات میں اپنے قوم قبیلے کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ چند گھرانے نمائندوں کی سابقہ کارکردگی اور نمائندے کی تعلیمی قابلیت پہ اپنا ووٹ اس نمائندے کو دیتے ہیں۔ چترال ٹاؤن کے لوگ علماء کی قدر کے علاوہ ان پر اعتبار بھی کرتے ہیں۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ چترال ٹاؤن کے عوام پھر دینی جماعتوں کو کامیاب کریں گے کہ نہیں؟ اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی سے دینی جماعتوں کو چترال ٹاؤن میں زبردست کامیابی ملے گی مگر ہمارا سروے چونکہ چترال ٹاؤن کی حد تک محدود تھا اگر ہم چترال کے بالائی علاقوں میں یہی سروے کریں تو نتائج بہت مختلف ہونگے۔ اپر چترال کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ قوم قبیلے کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ سابقہ عام انتخابات میں ہم نے دیکھا ہے کہ چترال اور دروش کے نتائج سے اپر چترال کے نتائج بہت مختلف آئے ہیں۔ پچھلے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار نے چترال اور دروش میں زبردست سبقت حاصل کی مگر اپر چترال میں شہزادہ افتخار نے نہ صرف اس سبقت کوختم کیا بلکہ الیکشن میں کامیابی بھی حاصل کرلی۔
22مئی کی صبح میں اپنے laptop میں محفوظ شدہ نتائج لے کے آفس کی جانب جا رہا تھااچانک میری نظر اتالیق بازار کے عین بیچ میں فرداد علی شاہ صاحب کے الیکشن آفس پر پڑی جس کو انتخابی پوسٹروں اور جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا اونچی آواز میں گانے لگائے جا رہے تھے لیکن میرے سروے کے مطابق فرداد علی شاہ پانجویں نمبر پر تھے۔ میں اس گہماگہمی پر ایک مسکرایا اور افس کی طرف چل دیا۔
30 مئی کی شام کو الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا تو مولانا جمشید پہلے اور قاضی فیصل سعید دوسرے نمبر پہ آئے۔ ہمیں اپنے دونوں سوالوں کے جوابات ۲۲ مئی کو ہی مل گئے تھے مگر ابھی سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے بلدیاتی نمائندگان نے عوامی امنگوں کے مطابق کام کیا یا نہیں؟ میں طالبعلموں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس بارے میں بارے میں ضرور تحقیق کریں۔ مستقبل قریب میں بلدیاتی نظام کا کردار بہت اہم ہوگا ۔

Print Friendly, PDF & Email