سماجی پختگی اور ترقی کے بند دروازے (حصہ-1)

ہمارے ہاں اکثر لوگ شکایت کرتے نہیں تھکتے کہ نہ صرف آۓ روز ہمارے مسائل گھمبیر ہوتے جارہے ہیں بلکہ جن لوگوں کو ذمہ داریاں سونپ کر ہم اسمبلیوں تک پہنچاتے ہیں وہ بھی ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں دے سکتے. اس المیہ کی مختصر وضاحت کرنے سے پہلے کھڑے کھڑے چند کھرے کھرے سوالات کے بارے سوچنے میں میرا ساتھ دیجئیے کہ:

  • کب تک ہم سرکس کے فنکاروں کی کرتب دیکھ کر متاثر ہوں گے یا گڈریوں کے ہاتھ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بن کر ہانکتے جائیں گے؟
  • کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ عوام کو دو نمبر سیاسی مال بیچنے والا پتلون پہن کر انگریزی جھاڑتا ہے یا پگڑی پہن کر عربی فرفر بولتا ہے؟
  • ہم کب ظاہری صورت دیکھنا اور زبانی جمع خرچ پر یقین رکھنا بند کرکے لوگوں کو معاشرتی بہبود، ان کی کارکردگی اور کردار کے پیمانے پر پرکھنا شروع کریں گے؟
  • کیا میرے قبیلے، خاندان، نسل یا مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص زیادہ پاک صاف اور اچھا ہوسکتا ہے یا آپ کے؟ یا پھر اچھائی کے لیے کسی شخص کا خود اچھا ہونا ضروری ہے؟
  • جب تک اقوال، کردار کا ساتھ نہ دیں اور جب تک افعال معاشرتی بہبود کے لیے مفید نہ ہوں، ہمارے لیے سیاست دانوں وغیرہ کی لفاظی اور الفاظ کا ہیرپھیر کیوں اہمیت رکھ سکتا ہے چاہے دعوی جو بھی ہو؟
  • ہمارے پاس کسی کی اچھائی برائی ناپنے کا آخر معیار کونسا ہے اور حقیقتاً کونسا ہونا چاہیئے؟ کیا کوئی تعلیمی سند، اعلیٰ عہدہ اور موٹی تنخواہیں، معاشرتی اثرو رسوخ، مال و متاع، خاندانی پس منظر، سیاسی وابستگی، نظریاتی دعوے، مذہبی فرقے، ذات برادری وغیرہ کسی کے اچھے یا برے ہونے کی دلیل بن سکتے ہیں؟

آپ کیا سمجھتے ہیں کہ درجہ بالا میں سے کس چیز کو اندھی عقیدت و محبت کی بنیاد بناکر لوگوں کے ساتھ سماجی تعلق رکھنا چاہیئے یا پھر سیاسی رویہ اختیار کرنا چاہیئے؟

میرا خیال ہے درجہ بالا میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد فرد کی ذاتی خصوصیات شمار ہوسکتی ہیں، مگر بذات خود اجتماعی طور پر کسی کے بہتر یا بدتر ہونے کی شرط ہر گز نہیں۔ جب تک ایک شخص دیگر خصلتوں مثلاً دور اندیشی، معاملہ فہمی، احساس ذمہ داری، دیانت داری، امانتداری، اجتماعی مسائل سے آگہی اور ان کے حل کی قابلیت، انسانیت پر مبنی وسیع سوچ وغیرہ کا مالک نہ ہو ہمارے لیے اُس کی کوئی اہمیت نہیں ہونا چاہیئے اگرچہ وہ اعلیٰ سندیافتہ ہی کیوں نہ ہو یا اس کا تعلق بااثر سمجھنے والے خاندان یا کھاتے پیتے گھرانے سے کیوں نہ ہو یا پھر وہ اپنی تقریروں اور دعوؤں میں اِس دنیا یا اُس دنیا کو جنت بنانے کی باتیں کیوں نہ کرتا ہو.

لہذا اجتماعی معاملات پر ذمہ داریاں سونپتے ہوۓ ہمیں بڑے اور پیچیدہ سائنسی نظریات سمجھنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف یہ جاننا کافی ہے کہ ہمارے نزدیک "اچھا” کون ہوسکتا ہے یا "اچھائی” کی پہچان کیا ہے. جس دن ذاتی تعصب اور وقتی مصلحتوں کو ایک طرف رکھ کر ہم لوگوں کو جانچنا شروع کریں گے، انہیں معاشرتی مقام دلائیں گے، ان کی عزت و حوصلہ افزائی کریں گے، انہیں رہنمائی کے قابل سمجھ کر نمائندگی دلوائیں گے اس دن ہمارے سماجی و سیاسی مسائل خودبخود حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔  یہی ایک کنجی ہے جس سے ہم خود کو درپیش تمام مشکلات کے حل کے بند دروازے کھول سکتے، معاشرے میں دیگر مثبت چیزوں کو فروغ دے سکتے اور امن و رواداری کے ساتھ ترقی کا زینہ چڑھ سکتے ہیں.

(جاری ہے)

Print Friendly, PDF & Email