سماجی پختگی اور ترقی کے بند دروازے (حصہ-2)

بھلائی اور برائی کا تصور اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ معاشرتی رویہ ہوتا ہے. اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ عام زندگی میں ہم جو چاہیں نفرتیں بکھیرتے رہیں اور انسانوں کو انانیت اور من مرضی سے مختلف تعصبانہ، نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ گروہوں میں بانٹ کر ان سے سلوک کریں جبکہ کسی خاص موقع و محل مثلأ انتخابات کے دنوں ہمارا طرز عمل بدل جاۓ. ایسا ہونا یا کرنا ممکن ہی نہیں. ہم زندگی اور اپنے آس پاس بسنے والے انسانوں کے بارے میں جو بھی نقطہ نگاہ اور سوچ رکھیں گے ہمارا رویہ اس کی عکاسی کرے گا. اس لیے پہلے ہمیں بحثیت باشعور اور ذمہ دار قوم اپنے ذہنوں کو درست سمت پر ڈالنے کی تگ و دو کرنی چاہیئے. جب ہم جمہوریت اور انسانی حقوق اور اعلی اخلاقی اقدار کا تذکرہ کرتے ہیں تو بنیادی طور پر ہم ایک طرز فکرو زندگی کی بات کرتے ہیں. اور جس طرح ہم ان چیزوں کو سمجھے اور ان پر عمل پیرا ہوۓ بغیر کسی تبدیلی کی امید نہیں رکھ سکتے تب تک اجتماعی مسائل کے اوپر ہماری خواہش محض آرزو بن کر رہے گی, حقیقت کا روپ دھار نہیں سکے گی۔

سماجی پختگی اور ترقی کے بند دروازے (حصہ 1)

لہذا سب سے پہلے ہمیں ان جمہوری اور اخلاقی اقدار کو معاشرے میں ترویج دینی ہوگی جنہیں ہم اپنے معاشرے, اداروں, اپنے جیسے افراد اور اپنے نمائندوں میں دیکھنا چاہتے ہیں. یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص نسلی اور مذہبی تنگ نظری پر مبنی تصورات کا حامی بھی ہو جبکہ اپنی ہمسائیگی میں بسنے والوں کے ساتھ برادرانہ اور مساویانہ سلوک بھی رکھے. ایسا بھی ممکن نہیں کہ ہم اپنے جیسے لوگوں کو غیر سمجھ کر معاشرے میں ان کا جینا دوبھر کردیں جبکہ انتخابات کے دنوں میں بہتر اور معاشرے کے لیے اچھے نمائندوں کا انتخاب کریں. اور یہ بھی ناممکن ہے کہ انتخاب تعصب پر مبنی غلط لوگوں کا کریں اور معاشرتی عزت خاندان اور دیگر قبائلی اقدار کی بنیاد پر کمینوں کو ملے مگر لوگوں سے شکوہ ہو کہ وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کیوں نہیں کرتے یا کیوں معاشرے میں ناانصافیاں ہورہی ہیں یا کیوں ہمارے نمائندے ہمارے اجتماعی مفادات کے بارے میں فکرمند ہونے کے بجاۓ صرف اپنا پیٹ پالنے میں لگ جاتے ہیں۔

اس چیز کا تذکرہ کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ جب تک ہم فرد کے معاشرتی لحاظ سے مفید ہونے کا واحد معیار چھوڑ کر کسی بھی وقتی اور نجی مصلحت, ذاتی پسند ناپسند اور قبائلی تعصبات پر مبنی اچھائی برائی پر عمل پیرا ہوکر اجتماعی ذمہ داریاں نااہل لوگوں کو سونپتے رہیں گے کسی بھی کامیابی کی امید رکھنا بیکار ہے. ہوسکتا ہے اس قسم کے نمائندے چند محدود مفادات کے لیے وقتی طور پر مفید ہوں. مگر آگے چل کر ایسی نمائندگی معاشرے میں برائیوں کے پھیلاؤ اور اجتماعی پستی کا سبب بن جاتی ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ہمارے غلط طرز عمل سے غلط رویوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تو دوسری طرف باہم نفرتوں پر پلنے والے سیاست دانوں کی نظر صرف اپنی ذات یا زیادہ سے زیادہ اپنے قبیلے, خاندان, مذہبی فرقہ یا برادری سے آگے نہیں جاتی. ان کی کوششوں کا محور دور اندیشی اور خیر اندیشی نہیں ہوتی بلکہ انتہائی تنگ نظری, خود غرضی اور خود پرستی ہوتی ہے۔

سیاست دان صرف سیاست کر رہے ہوتے ہیں. وہ لوگوں کی ہمدردیاں اور ان کا ووٹ بٹورنے کے لیے کوئی نہ کوئی نعرہ ایجاد کرکے ان کے ذہنوں میں موجود نفسیاتی خوف اور جذباتی نفرتوں وغیرہ سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں. مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ ان کی تمام تر سیاسی چال بازیاں, نعرے, بیانات, دلائل و استدلال اور دعوے محض اپنی ذات یا محدود مقاصد کے لیے ہوتے ہیں. جہاں لوگ آسانی سے ان نعروں کا شکار بن سکتے ہیں وہاں سیاست دانوں کا کام اور بھی آساں ہوتا ہے. اور سیاست کار دیگر معاشرتی, معاشی اور ترقیاتی ترجیحات, پالیسیاں اور سیاسی پروگرام چھوڑ کر صرف چند نعروں اور دعوؤں کے گرد اپنی کوششیں اور انتخابی حکمت عملی باندھ دیتے ہیں. اس سے اصل مسائل نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔

جب عوام پختگی کا مظاہرہ کرے گی تو نہ صرف عمدہ کردار والے باصلاحیت نمائندوں کا انتخاب ممکن ہوسکے گا بلکہ تمام تر سیاست دان بھی کھوکھلے دعوؤں کے بجاۓ اپنے رویوں میں تبدیلی لاکر حقیقی اور عملی مشکلات کے حل کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کریں گے. پھر یوں ہوگا کہ وقت کے ساتھ معاشرے میں صرف جھوٹے اور مکار سیاست کار پیدا نہیں ہوں گے بلکہ درست معنوں میں رہنماء اور رہبر جنم لیں گے جو ترقی و ارتقاء کے سفر میں سب کو ساتھ لے کر ملک و قوم کی تقدیر بدل سکیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email