آپ ڈپٹی کمشنر ہیں وائسرائے نہیں!

چترال کے باسیوں کی یہ خاصیت ہے کہ وہ کسی کو کچھ دینے کےقابل ہوں یا نہ ہوں ، اگلے بندے کو عزت دینے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ اس روش کے باعث اگلا بندہ بھی اگر تھوڑی عزت سے پیش آئے تو اس کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور اوقات سے بڑھ کر اس کی عزت افزائی کرتے ہیں۔ چترال کے موجودہ دپٹی کمشنر ارشاد سدھیر جب ضلع میں تعینات ہوئے تو انہوں نے ڈیوٹی سنبھالنے سے پہلے ہی کچھ ایسے اقدامات اٹھائے کہ چترالیوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ جلوس کی شکل میں ایک ڈپٹی کمشنر کے استقبال کے لیے آئے اور ردعمل میں ارشاد سدھیر بھی چترالیوں کا دل جیتنے کی کوشش کی اور اپنے کام سے ثابت بھی کیا کہ وہ دوسرے ڈپٹی کمشنروں سے کچھ مختلف ہیں۔ لیکن ایک واقعہ ایسا ہوا جو چترالیوں کی توقعات کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔ گذشتہ روز ایک چترالی نوجوان کاشف الدین اپنے والد بشیر الدین کے ہمراہ چترال پریس کلب میں پریس کانفرنس کی ۔ کاشف الدین کے مطابق وہ ڈپٹی کمشنر آفس میں بطور ڈرائیور کام کرتا تھا اور گزشتہ چند ماہ سے وہ ڈپٹی کمشنر کے خاندان کے ساتھ سندھ کے کسی علاقے میں ڈیوٹی پر معمور تھا۔ کاشف کے مطابق ڈی سی آفس چترال کی دو گاڑیاں سندھ حیدرآباد میں ارشاد سدھیر کی فیملی کے زیر استعمال ہیں اور وہ بھی ڈی سی کی فیملی کے ہمراہ حیدر آباد میں ہی مقیم تھے۔ اس دوران ڈی سی آفس چترال کی گاڑی کو حیدر آبادمیں حادثہ پیش آیا جبکہ حادثے کے وقت گاڑی ارشاد سدھیر کی اہلیہ چلا رہی تھیں۔ اس واقعے کے بعد کاشف کو نوکری سے نکال دیا گیا۔کاشف نے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے پریس کانفرنس کی اور ساوا واقعہ بیان کر دیا۔ اس نے یہ بھی گلہ کیا کہ اتنے عرصے وہ ارشاد سدھیر کے گھر والوں کے ساتھ ڈیوٹی دے رہا تھا لیکن ان کو گھر میں رہنے کے لیے جگہ تک نہیں دی گئی تھی اور وہ گھر کے سامنے واقع ایک اکیڈمی میں سو کر ڈی سی کی فیملی کے ساتھ ڈیو ٹی سر انجام دیتا رہا۔ بعد میں ڈی سی آفس کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ کاشف کو نوکری سے اس حادثے کے باعث نہیں نکالا گیا بلکہ کاشف کے خلاف پہلے ہی ایک انکوائری چل رہی تھی اور انکوائری کمیٹی کی سفارش پر ہی کاشف کو نوکری سے برخاست کیا گیا۔ پریس ریلیز میں کاشف کو منشیات کا عادی بتایا گیا اور ان کے والد پر بھی سرکاری فنڈ سے غبن کا الزام لگایا گیا۔ کاشف کو نوکری سے کیوں نکالا گیا یہ نہ میری مدعا ہے اور نہ مجھے اس بارے میں سوال کرنے کا حق ہے لیکن کچھ اور سوالات ہیں جو جواب کے طلبگار ہیں۔وہ یہ کہ، جو گاڑیاں ڈپٹی کمشنر چترال کے لیے مختص ہیں وہ کئی مہینوں سے سندھ میں ان کے خاندان والوں کے زیر استعمال کیوں ہیں؟ ڈی سی چترال کی گاڑیاں ضلعی حکومت کی بجٹ سے خریدی جاتی ہیں اور چترال میں خدمات سرانجام دینے والوں کے لیے ہیں ۔ چترال کی بجٹ سے یہ گاڑیاں اس لیے نہیں خریدی گئیں کہ آپ انہیں سندھ میں اپنی فیملی کو دیدیں تاکہ وہ ہائی ویز پر ڈسٹرکٹ گورنمنٹ آف چترال کی گاڑیوں کا ایکسیڈنٹ کرواتے پھیریں ۔ یاد رہے کہ آپ ڈپٹی کمشنر لگے ہیں چترال میں ،وائسرائے نہیں ۔ اگر کاشف منشیات کا عادی تھا، گاڑی تیز چلاتا تھا اور پہلے بھی تین بار ایکسیڈنٹ کروا چکا تھا تو ایسے بندے کو اپنے خاندان کے ساتھ تعینات کیوں کیا،؟ کیا ایک ہوش و حواس والا شخص اپنی فیملی کو منشیات کے عادی شخص کے حوالے کر سکتا ہے؟ چترال میں منشیات ایک بہت بڑا مسئلہ ہے یہ ہم سب جانتے ہیں لیکن جب ڈپٹی کمشنر کا اپنا ڈرائیور ہی منشیات کا عادی ہے تو پھر آپ سے کیا توقع رکھیں ؟ جب آپ کا اپنا اسٹاف ہی اس لعنت میں مبتلا ہے اور آپ اپنے دفتر کو منشیات سے پاک نہ کر سکے تو چترال کے معاشرے کو آپ کیا خاک صاف کریں گے۔ پریس ریلیز میں لگایا گیا یہ الزام کاشف الدین پر نہیں بلکہ ڈپٹی کمشنر چترال اور ایس پی پولیس چترال پر لگاہے۔ اگر کاشف منشیات کا عادی تھا بھی تو اس کو صرف اس وقت ہی کیوں نکالا گیا جب آپ کی اہلیہ کے ہاتھوں سرکاری گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔جب کاشف تین بار ایکسیڈنٹ کروا چکا تھا تو آپکو اس کے خلاف انکوائری بیٹھانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوئی۔ آپ کا ضمیر تب کیوں جاگا جب آپ کے خاندان کے ساتھ حادثہ پیش آیا ۔ کیا اس سے پہلے جو تین حادثات ہو چکے تھے ان لوگوں کی زندگیوں کی آپ کی نظر میں کوئی وقعت نہیں تھی؟ اگر دو گاڑیوں سمیت ایک ڈرائیور کو اپنے خاندان والوں کی خدمت پر لگایا تھا تو پھر اس کے رہنے کے لیے بند وبست کیوں نہیں کیا؟یہ میرا سوال نہیں شکوہ ہے۔ آپ چترال کے لوگوں میں وائسرائے بنے پھیر رہے ہیں تو کیا ایک چترالی کی اتنی بھی عزت افزائی نہیں کرسکتے تھے کہ اسے کسی سرونٹ کوارٹر میں ہی رہنے کو ایک کمرہ دے دیتےتاکہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہوتی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے خاندان میں کاشف کو تھوڑی سی بھی عزت ملتی تو آج وہ آپ کا پردہ فاش نہ کرتا آپ کا عزت کرتا آپ کے خاندان والوں کی عزت کرتا۔ چترال کے لوگ عزت دیتے ہیں لیکن بدلے میں عزت کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ آپ کی بھی چترال میں بہت عزت ہے ۔امید ہے آپ جب بھی جائیں گے،عزت سے جائیں گے لیکن حالات کسی اور جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی سب کی عزت سلامت رکھے۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email