علم و ادب کا درخشان باب مولا نگاہ نگاہ

منم آں شاعر ساحر کہ بہ افسونِ سخن

از نئ کلک ھمہ قند و شکر می بارم

میں وہ جادوگر شاعر ہوں کہ اپنے کلام کے سحر سے قلم کی نوک سے سر تا سر قند اور شکر برساتا ہوں

یہ اشعار حافظ شیرازی نے  تو اپنے بارے میں کہے تھے مگر جونہی استاد الاساتذہ مولا نگاہ نگاہ صاحب کے انتقال کی خبر پڑھی، زبان پر جاری ہوئی۔استاد محترم اعلیٰ تعلیم یافتہ، ادیب، شاعر اور محقق تھے ۔موصوف کریم النفس، منکسر المزاج، روشن دماغ، متنوع المعلومات، خیر خواہ عامہ خلق، راسخ الاعتقاد ،صلح کل، مرنجان مرنج، قناعت پسند اور فیاض طبعی کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے ۔استاد محترم ایک عہد ساز شخصیت تھے جنہوں نے اپنی انتھک محنت اور دیانتداری کے سبب نہ صرف اپنے شاگردوں میں بلکہ پورے معاشرے میں مقام پیدا کیا۔ آپ اپنی تدریسی خدمات اور ادبی سرگرمیوں کے سبب نہ صرف چترال بلکہ مُلکی  سطح پر پر بھی ایک جانی پہچانی شخصیت بن چُکے تھے۔ آپ نے بطور مُدرس  کئی عشروں تک خدمات سرانجام دیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیاب و کامران افراد پیدا کیے۔  آپ کی شخصیت میں ایک قدرتی جاذبیت اور کشش تھی۔ آپ مُخاطبین کے ساتھ انتہائی فلسفیانہ  انداز میں بات کرتے اور جہاں اختلاف رائے نظر آتا تو کوئی مصالحانہ حل تجویز کرتے جو کہ جانبین کے لیے قابل قبول ہوتا۔

ہمیشہ حاضرین کے چہرے پر اپنے چٹکلوں سے مسکراہٹ بکھیرتے۔

اگرچہ میں ان کو قریب سے جاننے کا دعوٰی تو نہیں  کر سکتا لیکن وقتا فوقتاً سوشل میڈیا، ان کی شاعری اور کتابوں کی توسط سے ان کی شخصیت کو پرکھنے کی کوشش کی ۔دنیا گلوبل  ویلج بن چکی ہے ،سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بہت جانتے ہیں ۔خاکسار  ان کی تحاریر ،شاعری اور بہترین رویے کی وجہ سے بہت متاثر تھا ۔بدقسمتی  سے راقم الحروف کا ان کے ساتھ تعلق سوشل میڈیا کی حد تک تھا ۔ہمیشہ ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے لیکن ناچیز کی لاپرواہی اور مصروفیت نے ہم بزمی کا موقع نہ دیا ۔

ان کی زندگی کہنے کو تو ایک کھلی کتاب کی مانند تھی لیکن بطورِ ایک قاری کے میرے لیے اس کتاب کا ہر ایک صفحہ پرکشش اور ہر ایک باب تحیر اور استعجاب سے مزین تھا۔ادب سے تعلق رکھنے والے ان کے احباب سے ان کے بارے میں بہت ساری باتیں سننے کو ملیں ۔ ادبی حلقے سے تعلق رکھنے والے احباب  موصوف کی  شخصیت کے کئی اہم پہلوؤں سے  پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، اپنی میٹھی بات کہنے اور دوسروں کی کڑوی بات سننے کا حوصلہ رکھتے تھے۔دو سال قبل جب ان کی برادری نے انہیں برادری کا سرپرست اعلیٰ مقرر کیا تو سوشل میڈیا پر ان کے خلاف طوفان کھڑا ہوا تو راقم الحروف نے بھی سخت حاشیہ آرائی  کی ۔میرا خیال تھا استاد  محترم سیخ پا ہو جائیں گے لیکن موصوف نے انتہائی شائستگی اور دلائل کے ساتھ ساتھ اپنی پوزیشن واضح کی جس پر مجھے سخت ندامت کے ساتھ ساتھ ان کے اس مثبت رویے کا قائل ہونا پڑا ۔

انجمن ترقی کھوار کے صدر شہزادہ تنویر الملک کہتے ہیں میری ان کے ساتھ رفاقت کئی دہائیوں پر محیط تھی وہ ہر بات اتنے پراعتماد اور اپنائیت کے انداز میں کرتے تھے کہ آپ کے پاس یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا . ادب کے حوالے سے کوئی بھی کام ان کے حوالے کیا جاتا تو بڑے احسن انداز میں نبھاتے ۔ان کے اندر کوئی غرور اور گھمنڈ نہ تھا ۔کھوار موسیقی اور ستار نوازی پر بھی انہیں عبور حاصل تھا ۔جب بھی ہم نے اکھٹے سفر کیا تو بہترین رفیق رہے ۔ان کی سنگت میں تھکاوٹ کا پتہ بھی نہیں چلتا ۔ان کے لہجے کی گہرائی، با محاورہ  گفتگو کا انداز سن کر ان پر پرانے زمانے کے کسی داستان گو کا گمان ہوتا تھا. وہ جب قصہ گوئی پر آتے تو ایک سماں سا باندھ دیا کرتے تھے. آپ جب ان کے پاس بیٹھ کر ان کے دلچسپ اور پر مزاح گفتگو سے لطف اندوز ہورہے ہوتے تو بالکل بھی اٹھنے کو جی نہیں کرتا تھا. بقول شاعر –

وہ کہے اور سنا کر ے کوئی

ان کی خوش گفتاری، حاضر جوابی اور بزلہ سنجی ضرب‌المثل تھی۔انہیں اردو، فارسی اور کھوار پر خوب دسترس حاصل تھی ۔

ان کی دو کتابیں کلام نقطۂ نگاہ اور   شرحِ دیوان بابا سیار مارکیٹ میں دستیاب ہیں، اس کے علاوہ کئی رسائل و اخبارات میں ان کے آرٹیکل شائع ہو چکے ہیں ۔کھوار لغت ترتیب دینے میں ان کا بڑا کردار ہے ۔تاریخ پر ان کی کتاب کمپوزنگ کے مراحل میں ہے ۔ ادب میں نگاہ صاحب کا مقام و مرتبہ طے کرنا نقادوں کا کام ہے، ہم جیسے مداحوں کا نہیں۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں کو کبھی ہنسی اور علم کا خزانہ  بانٹنے والا چل بسا۔ مولانا حالی نے اپنے، ہمارے محبوب غالب کی موت پر کہا تھا۔

کچھ نہیں فرق باغ و زنداں میں

آج بلبل نہیں گلستاں میں

شہر سارا بنا ہے بیت الحزن

ایک یوسف نہیں جو کنعاں میں

استاد مولا نگاہ کنعانِ اردو، کھوار اور فارسی کے یوسف تھے!

اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔آمین

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email