ایٹا(ETEA) ٹسٹ آوٹ!

محکمہ اعلیٰ تعلیم، آثارقدیمہ اور لائبریریز حکومت خیبر پختونخوا نے صوبے کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلوں کے لئے 19اگست 2018کو منعقد کئے گئے ایٹا ٹیسٹ منسوخ کر دیئے ہیں ۔ مجاز حکام نے اس معاملے کی انٹیلجنس بیورو کے ذریعے انکوائری کرنے کے احکامات بھی جاری کئے ہیں ۔ مذکورہ ٹیسٹ کے انعقاد کے لئے اگلی تاریخ کا اعلان صوبائی حکومت بعد میں کرے گی جو تمام متعلقہ افراد کی اطلاع کے لئے ایٹا(ETEA)کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے گی۔ ہمارے تئیں اس سے بڑھ کر اہمیت کا حامل معاملہ اس ٹیسٹ کے حوالے سے طالب علموں میں بڑھتے خدشات اور منفی تاثرات ہیں۔ اس لیے اس کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جس کے باعث خواہ وہ داخلوں کے بارے میں ہو یا پھر سرکاری آسامیوں کے دونوں طرح کے ٹیسٹوں کی شفافیت اور وقعت میں کمی آرہی ہے۔ بہتر ہوگا کہ درج بالا اقدامات کے ساتھ ساتھ اس نہایت ضروری معاملے پر زیادہ توجہ دے کر طلبہ کا اعتماد بحال کیا جائے۔

 اس سے پہلے ہم نے این ٹی ایس نامی نجی ادارے کے خلاف لکھنے کی کوشش کی تو ہمارے کئی دوستوں نے بالواستہ یا بلا واستہ ہم پر طنزیہ نشتر چلانے کی کوشش کی۔ ہمارا مقصد آپ کی پسندیدہ جماعت یا لیڈر کی تضحیک ہر گز نہیں بلکہ اداروں کے اندر موجود خامیوں کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے ۔ اگر آج آپ خاموش رہے یا غلط کام کے دفاع کےلیے آستین چڑھا کر میدان میں اترنے کی کوشش کی تو اس کا خمیازہ آپ کو بھی بھگتنا پڑے گا ، کل کو آپ ہی کے بچوں کو ان مراحل سےگذرنا پڑے گا تو اس وقت آپ کی پوزیشن کیا ہوگی ؟

 چند سال قبل پشاور میں ایک دوست سے ملاقات ہوئی جن کا تعلق کوہاٹ سے تھا ۔ ان کے ساتھ ایک بابا جی بھی تھے ۔میں نے پوچھا بابا جی پشاور کیسے آنا ہوا کہنے لگے "میری بھتیجی کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا ہے وہ ہاسٹل میں رہنا نہیں چاہتی اس کے لیے کوئی رہائش کا بندوبست کرنا ہے ۔ان کے ابو امریکہ میں رہتے ہیں لہذا میں فلان صاحب کے ذریعے سارے انتظامات کرنے کی کوشش کررہا ہوں” بابا جی سادہ لوح آدمی تھے۔ کہنے لگے "نمبر کم تھے ہم نے لاکھوں روہے خرچ کردیے ہیں اب تو کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا ” میرا مقصد ہرگز یہ نہیں مکمل نظام خراب ہے، لیکن کئی عناصر ایسے ہیں جو واردات کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ امتحان میں پرچہ لیک ہونے، پیسے دے کر پاس ہونے کے تجربات کا طلبہ پر کتنا برا اثر پڑتا ہوگا؟

جس نظام پر انہیں پہلے دن سے بھروسہ ہونا چاہئے، اس کے ساتھ ان نوجوانوں کے تعلقات کا آغاز ہی رشوت سے ہوتا ہے۔ یہی تجربہ جب اسے میڈیکل اور انجینئرنگ کے امتحان کے وقت ہوتا ہوگا تو اس کا یقین گہرا ہو جاتا ہو گا کہ اس ملک میں کچھ بننا ہے تو اس کا یہی طریقہ ہے۔ ہو سکتا ہے یہی مایوسی کی ایک وجہ بھی ہو۔ اس لئے ہمیں اس کی مانگ کرنی ہی چاہئے کہ پاکستان میں امتحان کا نظام ایسا ہو جس میں کوئی عیب نہ لگا سکے۔امید کرتے ہیں نئی حکومت نے شفافیت کے حوالے سے جو وعدے کئے ہیں ان پر بھر پور عمل کرے گی ۔

Print Friendly, PDF & Email