"میرا ووٹ تعلیم کو” پرایک تبصرہ

گزشتہ چند دنوں سے زیل نیوز اور سوشیل میڈیا کے ایک معروف کالم نگار جناب نور شمس الدین کا ایک مزاحیہ پوسٹ فیس بک پر گردش کرتا رہا جس میں موصوف نے آنے والے الیکشن میں  کس کو ووٹ دے رہے ہیں، کے بارے ‘چند دن بعد’، ‘دوسرے دن’ اور ‘اگلی شام’ کو بتا ئیں گے، کہکر لوگوں کو خاصی تعداد میں اپنی طرف متوجہ کیا۔ میں اس مزاح سے یہ اخذ کیا ہوا تھا کہ موصوف اس طریقے سے لوگوں کو حسَاس بنا کر ان کو یہ تعلیم دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ  اگر ووٹ سرِعام بتانے کی ہوتی تو الیکشن آف پاکستان کو ووٹنگ سکرین کے نام پہ ایک الماری نما میز ڈیزائن کرکے خزانے کی خطیر رقم ضائع نہ کرتا اور نہ ہی پولنگ سٹیشن کے ایک کونے میں یہ سکرین لگا کر پولنگ عملے اور ووٹرز دونوں کا قیمتی وقت ضائع کرتا۔ لیکن بات کچھ اور نکلی۔  جب محترم شمس کا آرٹکل "میرا ووٹ تعلیم کو” کے عنوان سے زیل نیوز پہ شائع ہوا تو میرا وہ مفروضہ حقیقت کے قریب سے بھی نہ گزر سکا۔ پتہ چلا کہ لکھاری نے انتخابی امیدواروں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس بار اپنے ووٹ کی قیمت ان سے ضرور لے کے رہیں گے۔ اور کھلے عام لیں گے۔ اپنی اس ابتدائی خلاصے کے ساتھ مذکورہ آرٹیکل کے چند سطور پر اپنا تجزیہ اور رائی دہی کا اظہار قارئین سے شئیر کرنا چاہتا ہوں، ضروری نہیں کہ قارئین میرے اس تجزیے سے متفق ہوں۔

جب میری نظر اس عنوان پہ پڑی تو بڑی خوشی ہوئی کیونکہ ایجوکیشن کو ووٹ دینا تو میری بھی دلی خواہش ہے۔ لیکن جب آرٹیکل کے پہلے پیراگراف پڑھنے لگا تو محترم لکھاری کی طرف سے ایسے پیرامیٹرز سامنے آگئے جن کا تعلق ایجوکیشن سے سِرے سے ہے ہی نہیں۔ مثلاً موصوف لکھتے ہیں کہ "۔۔۔۔۔۔آسان سا فارمولہ ہے کہ جو بندہ اچھا  لگے اسے ووٹ دو، وہ کرپشن کرے یا دیانتداری اس کی مرضی، میں پوچھوں گا نہ ووٹ دینے کا احسان جتاؤنگا اور نہ اپنے لیے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔” مزے کی بات یہ ہے کہ موصوف اپنے ان الفاظ کے حق میں یہ دلائل پیش کرتے ہیں کہ ” ووٹ تو محبت سے دیا ہوتا ہے اور محبت بے عرض ہوتی ہے”۔

اس دلیل سے مجھے تین طرح کی پریشانیاں  لاحق ہوگئیں۔ اوّل یہ کہ سائنس کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے ادب کے ماہرین سے کبھی سنا تھا کہ محبت اندھی ہوتی ہے ،فرض کر لیں کہ یہ بات درست ہے ،تو پھر یہ بھی ماننی پڑے گی کہ ایسے ووٹ کی کوئی قیمت نہیں ہوتی جو اندھی محبت میں دی جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں اپنے زمانہ طالب علمی سے اب تک سیاسیات کے ماہرین سے بلاواسطہ یا دو سیاسی ماہرین سے ( آپس میں باتیں کرتے  ہوئے )بالواسطہ ہوئے سنا تھا کہ ووٹنگ کا عمل اس لیے کی جاتی ہے کہ اس سے ایسے اشخاص کا چناؤ کیا جائے جو عوام کے مفاد میں ملک کی خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی، قانون اور امن و امان کی پالیسی وضع کریں جن کے تحت ملکی باشندے  عزت کی زندگی جی سکیں۔ لیکن اس آرٹیکل کے بعد میرا الیکشن کے بارے میں  اپنے نظریے پر دوبارہ غور کرنا ہوگاکیونکہ ووٹ تو محبت میں دی جاتی ہے،جس کے تحت نمائندہ کرپشن کرے یا دیانت داری، اس کا ملکی امور سے کیا غرض۔ چونکہ میرے دوست فاضل لکھاری کا تعلق سیاسیات سے ہے اس لیے مجھے ان باتوں سے شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں لیکن ایک سوال میرا اپنے محترم بھائی سے ضرور ہے کہ ان کے مطابق محبت کس بنیاد پہ ہونی چاہئے، کرپشن، دیانتداری، قابلیت و اہلیت، سماجی تعلقات یا کوئی اور وجہ؟

میری ناقص رائے میں محبت صرف اور صرف ان عالمگیر اصولوں کے لیے ہونی چاہئے جنہیں دیانت داری،سچائی، حلیمی، شفافیت،  علم و ہنر اور پاسداریِ عہد وغیرہ کہا جاتا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ امیدوار کا تعلق کس خاندان سے، کس قومیت سے، کس عقیدے سے یا کس علاقے سے ہے۔

اس کے علاوہ اس آرٹیکل کے آنے کے بعد ایک طرف میری یہ الجھن تو دوور ہو گئی کہ ووٹ کس کو دوں کیونکہ دنیاوی رشتوں میں میری سب سے زیادہ محبت میری اپنی ماں سے ہے۔ میں اپنی امَی سے پوچھ لوں کہ وہ کس کو ووٹ دینا چاہتی ہیں، اس طرح میری ووٹ بھی ٹھیک اُمیدوار کو جائے گا اور میری ماں کی رضامندی بھی مجھے حاصل ہوگی۔ اس سے میرا کیا غرض کہ میری ماں پاکستان کی خارجہ، داخلی، معاشی پالیسیوں سے کس حد تک با خبر ہیں کیونکہ ووٹ تو محبت میں دیا جاتا ہے۔

لیکن میری تشویش یہ ہے کہ ایسے انتخاب کے بعد ملک کاحال وہی ہوگا جو گزشتہ 7 دہائیوں سے ہے۔

موصوف نے اپنے آرٹیکل میں چترال سے منتخب امیدواروں کی مختلف خصوصیات کوجس باریک بینی کے ساتھ ضبطِ قلم کیا ہے  وہ قابلِ تحسین ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ان خصوصیات کو یکجا کرکے اپنے معاشرے میں پیدا کریں اور جہاں بھی ان خصوصیات میں سے زیادہ ملیں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ کیونکہ کسی ایک خصوصیت سے معاشرہ مکمل طور پر ترقی نہیں کر سکتا۔ امیدواروں کی مدح خوانی کرنے سے پہلے محترم شمس رقم طراز ہیں کہ "——– نہ اپنے لیے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرونگا” لیکن ایک دوست کی بات کرتے ہؤے یوں گؤیا ہؤے ہیں کہ ” —–ہر مشکل وقت میں ‘خان ‘ کا نمبر ملاتا اور مسائل حل ہو جاتے” ۔   میرا ایک معصومانہ سوال ہے کہ جناب یہ مسائل آپ کے کہنے پہ آپ کے دوست خان صاحب تک پہنچا کے حل کرواتے تھے تو یہ ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے مترادف نہیں  تو اور کیا ہے ؟؟

محترم کالم نویس نے اپنے کالم کے کسی حصے میں اس بات کا بھی  اظہار کیا ہے کہ ان میں گھر والوں کے جوش و جذبے کی وجہ سے بھٹوازم سرائت کر گئی ہے، یہ بات بھی قابلِ تشویش ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان میں صرف پاکستانزم کے علاوہ کوئی بھی اور ازم سرائت نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کی بہتری ہماری بہتری، پاکستان کی بقا  ہماری بقا اور پاکستان کی ترقی ہماری ترقی ہوگی۔ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔

رہی بات میرے ووٹ کی قیمت کا، موصوف لکھتے ہیں کہ ان کا ووٹ اس امیدوار کو علی الاعلان  کیا جائے گا جو چترال کے طلباء کو وظیفہ کی مد میں زیادہ سے زیادہ رقم مختص کرے۔ محترم لکھاری نے اپنے ووٹ کی قیمت اتنی کم مقرر کی ہیں جسے ہمارے ضلع کا کوئی ٹھیکے دار بھی ادا کر سکتا ھے۔ اس کراٹیریا کے مطابق تو امیدواروں کو کرپشن کے لیے کھلی چھوٹ مل جائے گی کہ وہ جتنا چاہیں کرپشن کریں اور اپنا وعدۂ سکالرشپ پورا کریں (کرپشن کے بارے میں سوال نہ کرنے کا وعدہ پہلے ہی ووٹر سے ہو چکا ہے) اور اس کے بدلے میں وہ ملک کا وزیر اعظم، صوبے کا وزیر اعلیٰ یا  ضلع کا ممبر نیشنل اسمبلی/صوبائی اسمبلی بن جائے۔ یہ وظیفہ دینا یا نادار لوگوں کی مدد کرنا میری دانست میں زیادہ تر سول سوسائٹی کا کام ہے جس میں ہم بھی شامل ہیں۔ اگر سول سوسائٹی میں موجود لوگ اپنی ماہوار آمدنی/تنخواہ کا صرف ایک فیصد (٪01) ہی کسی مشترکہ تنظیم کے تحت  جمع کریں تو چترال کے اندر کوئی بچہ یا  بچی  ایسا نہیں ملے گا/گی جو معاشی مجبوری کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ دے۔ اگر ہمیں ووٹ دینی ہے تو صرف اس بات کو سامنے رکھ کر دینی چائیے  کہ کون پاکستان کی بہتری چاہتا/چاہتی ہے اور کس کے اندر یہ قابلیت و اہلیت ہے کہ قوم کی آوازنہ صرف اسمبلی تک پہنچائیں بلکہ ان کے لیے بہتر پالیسی وضع کریں جس کے تحت برابری، میرٹو کریسی، جسٹس اور مواقع کی فراوانی ہو۔

میری گزارش تمام محبِ وطن پاکستانیوں سے یہ ہے کہ اپنے ملک پاکستان کی بہتری کی خاطر جس کے لیےبھی اپنا قیمتی ووٹ استعمال کرنا ہو صرف اس بنیاد پہ کریں کہ امیدوار میں اچھے صفات موجود ہیں جو کہ عالمگیر ہیں۔ آگر آپ سوچتے ہیں کہ وہ ساری صفات کسی بھی امیدوار میں یکجا نہیں ہیں تو اس کا انتخاب کریں جس میں زیادہ صفات موجود ہوں۔ کیونکہ آپ کا ووٹ بہت قیمتی ہے۔

 

Print Friendly, PDF & Email