ایم ایم اے چترال اور سیٹ کی کشمکش

عام انتخابات 2018ء کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ایک طرف سیاسی جماعتیں امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دینےمیں سرگرم عمل ہیں تو دوسری طرف الیکشن کمیشن نے 6جون تک کاغذات نامزدگی جمع کرنے کا وقت دیا ہے۔ نوٹیفیکشن کے مطابق یکم جون 2018 کو ریٹرننگ افسرپبلک نوٹس جاری کرے گا جس کے بعد2سے 6 جون تک امیدواراپنے کاغذات نامزدگی جمع کراسکیں گے۔7جون کو امیدواروں کی فہرست جاری کی جائے گی جبکہ 14 جون تک ان کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔عام انتخابات 25جو لائی کو منعقد ہوں گے اور 29جو ن کو حتمی فہرست کے ساتھ انتخابی نشانات دئے جائیں گے۔ ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح چترال میں بھی  الیکشن کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں تاہم چار دن رہنے کے باؤجود NA-1اور PK-1کے امیدواروں کے ناموں کا حتمی اعلان نہیں ہوا ہے۔اگرچہ پاکستان پیپلزپارٹی نے ممکنہ امیدواروں کا عندیہ تو دیا ہے تاہم  متحدہ مجلس عمل ، پاکستان تحریک انصاف،مسلم لیگ (ن)،عوامی نیشنل پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے ممکنہ امیدوار وں کے نام ابھی تک  فائنل نہیں ہوئے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعت جو 2002ءکےعام انتخابات میں چترال سے  قومی اسمبلی کی سیٹ جیتی تھی NA-1 ملنے پر مولانا عبدالاکبر چترالی جبکہPK-1ملنے پر حاجی مغفرت شاہ کو نامزد کی تھی۔بدھ کےروزضلعی مجلس شوریٰ نے خفیہ رائے شماری سے حاجی مغفرت شاہ کو صوبائی نشت کے لیے جماعت اسلامی کا متفقہ اور مضبوط امیدوارکے طور پر نامزد کیا تھا۔دو دن بعد جمعہ کے روزجماعت اسلامی چترال نے حتمی فیصلے کے ذریعے مولانا عبدالاکبر چترالی کو این اے ون کے لیے نامزد کیا اور یوں لگا کہ جے آئی قومی اسمبلی کی نشست لینے پر راضی ہوگئی ۔باوثوق ذرائع نے ان خبروں کوخبر کی حد تک دیکھتے ہوئے صوبائی سیٹ حاصل کرنے پر  بضد ہوگئے ۔یہ حقیقت ہے کہ  چترال میں ایم ایم اے بننے کی صورت میں صوبائی نشست دونوں پارٹیوں کی پہلی ترجیح ہوگی ۔ممکنہ حالات کے پیش نظر اگر ایم ایم اے 2002ءکی تاریخ دہراتی ہے  تو سیاسی حریفوں کو نہ صرف مشکل وقت دے گی بلکہ سیٹ نکالنے کے مواقع بھی زیادہ ہیں۔اگر سیٹ کی کشمکش میں اتحادکو زد پہنچا توالگ الگ انتخابات میں شرکت دونوں کی ناکامی کو یقینی بنائے گی۔متحدہ مجلس عمل میں شامل سیاسی جماعتوں کے  درمیان ہونے والے معاہدے کی رو سےصوبائی اسمبلی کی 99جنرل سیٹوں میں 50جمیعت علماء اسلام (ف)،40جماعت اسلامی اور9سیٹ دوسرے اتحادی جماعتوں کو ملیں گی۔معاہدے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ 2002ء کے عام انتخابات میں جن پارٹیوں کے امیدوار کامیاب یا دوسرے نمبرپررہے ہیں انہیں دوبارہ ان حلقوں سے آزمایا جائے گا۔اس کی رو سے PK-1 چترال کی واحد سیٹ جمیعت علماء اسلام کے حصے میں آئے گی۔اگرصوبائی نشت جے یو آئی کو ملی تو مولانا حسین احمد یامولانا عبدالرحمان ممکنہ امیدوار جبکہ قومی اسمبلی کی نشت ملنے پر  مولانا ہدایت الرحمان کے مواقع زیادہ ہیں۔اب جماعت اسلامی کا صوبائی سیٹ کے لیے اصرار اور جمیعت علماء اسلام کا معاہدے کی پاسداری کس نہج پہنچے گی وقت ہی بتائے گا۔ حالات کے تناظر میں اور خطرہ مول لینے کی ڈر سے دونوں جماعتیں بڑی  قربانی دے کر اتحاد کو برقرار رکھنے کی سرتوڑکوشش کریں گے ۔اگر خدانخواستہ اتحاد کی راہ میں رکاوٹیں مزید بڑھ گئیں  تو شاید ایک پارٹی پاکستان تحریک انصاف اور دوسری  پارٹی مسلم لیگ (ن) کی جھولی میں گرکر ساکھ کو بچانے کی کوشش کریں گے۔سیاسی رسہ کشی کی یہ کشمکش اگر 6جون تک جاری رہی تو بلدیاتی انتخابات کے بعد کی چپقلش اورکدُورتوں سے بات بہت آگےنکلے  گی۔

Print Friendly, PDF & Email