ہمارے جناب

وسیع جبے کے اختتام پر ماہین آبرو، دراز پلکوں کے سائے میں بڑی بڑی دلنشین آنکھیں ، پتلی سی ناک، گلابی ہونٹ جو جدا ہو تو سفید موتی نظر آئیں، چاند سا روشن چہرے کے ساتھ زلفوں کا رنگ گہرا ہو، یہ تعارف کسی خوبرو دوشیزہ کا ہوسکتا ہے لیکن ہمارے جناب کا انداز نرالا ہے۔ تعارف ان  کابھی ایسا ہی ہے مگر تھوڑے ردبدل کے ساتھ۔ ماتھا ان کا بھی وسیع ہے  لیکن آبرو ماہین نہیں پلکیں ان کی درمیانی لیکن ان کی خشمگین آنکھوں کے پہرے کے لیے کافی ہیں، ناک ذرا سی پھولی ہوئی ہے، ہونٹ بھی گلابی ہیں اور دانت بھی سفید، مکھڑا چاند سا تو نہیں لیکن کھبی کبھار روشن بھی ہوتا ہے۔  زلفوں کا رنگ  بھی گہرا ہے بس یہ کہ گرد میں اٹے  جھاڑوں کی مانند جنھوں نے کئی دن سے پانی نہ دیکھا ہو۔ان سب کے باوجود  اس عام خدوخال والے آدمی میں عجیب کشش ہےجو ہر ایک کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔

عادتیں ان کی شاہانہ، مزاج عاشقانہ، اور گفتگو فلسفیانہ۔ عادتیں یوں کہ ذرا سی بات پر ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے لیکن آنکھیں نم ہو تو اس کا دل بھی پگھل جاتا ہے طریقہ یہ کہ ان کا حکم فوراًمانا جائے، لیکن دوسرے کی سننے میں انھیں ذرا وقت لگتا ہے ان کی عام منطق یہ ہے کہ :

ہم شیخ نہ لیڈر،نہ مصاحب نہ صحافی

جو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے

جناب جو فرماتے ہیں اس بات پہ بضد اڑ جاتے ہیں، ہر کسی کی بات بھی نہیں سنتے ہیں اور جن کی سنتے ہیں بس سنتے ہیں۔ ہمیشہ کرتے وہی ہیں جو ان کا دل فرماتا ہے۔ سونا ان کا محبوب مشغلہ ہے اس سے ان کا جی کبھی سیر نہیں ہوتا جب بھی پوچھ لیں کہ کیا کر رہے تھے جواب ہمیشہ یہی آئے گا کہ "خیالستان کی سیر کو نکلے تھے”   ۔ حلقہ احباب گو کے تنگ ہے لیکن سب ان پہ جان چھڑکنے والے ہیں کیونکہ صاحب عالم ہر رشتے کو پوری ایمانداری اور دل لگی سے نبھاتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں، جھوٹ طبیعت شاہی کو ہمیشہ سے ناگوار گزری ہے، شوخی میں بھی بولا گیا جھوٹ جناب سے برداشت نہیں ہوتا۔ سگریٹ اور تمباکو کے بڑے شوقین ہیں بس یہی عادت ہمیں اچھی نہیں لگتی بار بار اصرار پر بھی چھوڑنا  ان کے لیے گراں گزرا اب اس موضوع پر بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانا ہے۔ کتابوں سے کچھ کچھ  دور رہتے ہیں کہتے ہیں کہ ” جب کتاب کھولتا ہوں تو الفاظ حشرات الارض کی طرھ کاٹنے کو دوڑتے ہیں ”  اس لیے کتابوں سے بیر ہے زیادہ زور دیا جائے تو یہ کہہ کر جان بچاتے ہیں کہ:

ہر لفظ کتابوں میں تیرا عکس لیے ہے

ایک پھول سا چہرہ مجھے پڑھنے نہیں دیتا۔

اب یہ پھول سا چہرہ والی مہ جبین کا  علم خدا ہی کو ہو۔ ایک عادت جو ہمیں اچھی لگتی ہے وہ یہ کہ بلاوجہ کسی کے پیٹھ پیچھے باتیں کرنے سے  گریز کرنے  کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹا ان کی ترجیحات میں شامل ہے چاِئے کے شرمناک حد تک شوقین ہیں۔ وہ روٹھ جائیں تو منانا محال، ان سے کوئی روٹھے کہاں کسی کی اتنی مجال؟۔ کسی کو اپنا کہیں تو بس اسے اپنا بنا کر رکھنا پسند کرتے ہیں ہمیں بھی اپنا کہتے ہیں اس لیے بار بار یہ تاکید ملتی ہے کہ کہیں جاتے ہوئے ان سے اجازت طلب کی جائے اس  بات پر

پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر  نہیں آتی

ایک بار کی بات ہے کسی رشتہ دار کی شادی تھی تو ہم بھی بڑے چاؤسے تیار ہوکر روانہ ہو ہی رہے تھے کہ ان کا خیال آیا، جھٹ سے اجازت طلب کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ جب بندہ خاکسار نے فریاد پیش کی تو جہاں پناہ نے  ناک سکیڑ کر کن انکھیوں دیکھ کر فرمان صادر کیا کہ بندہ خاکی کو ایسی جگہوں پر جانے کی اجازت نہیں جہاں صرف حسن کی نمائش، فضول کی اسائش اور شرارت کی گنجائش ہو۔ اب کیا تھا ہم بھی بادل ناخواستہ حکم کی تعمیل کی اور چپ سادھ کے گھر میں بیٹھ گئے۔

خود بھی انھیں شوروغل سے چڑ ہے اس لیے زیادہ تر وقت وہ اپنے شبستان میں اکیلے گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی عادتوں میں ایک عادت  سب کو بھا گئی ہے وہ یہ کہ جناب  صوم و صلواۃ کا پابند ہے کلام خداوندی حفظ  کیا ہوا ہے  اور تلاوت بھی بکثرت کرتے ہیں۔

مختصراً  یہ کہ ہمارے جناب دکھنے میں غمگین پر خیالات کے رنگین، دل کے پکے، من کے سچے اور عقل  کے تھوڑے کچے ہیں۔ اور جیسے بھی ہیں ہمارے جناب  تو ہمارے جناب ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email