سانحہ سات دسمبر اور مامتا

7 دسمبر 2016 کو جو اندوہناک سانحہ پیش آیا تھا اس حادثے میں نامور نعت خواں جنید جمشید اور ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ احمد وڑائچ سمیت 40 سے زائد چترالی شہید ہوے تھے پورے چترال کی فضاء سوگوار ہوئی تھی جسے اہالیان چترال ابھی تک بھولے نہیں ہیں۔ چند دن پہلے میرے سکول کے استاد محترم اقرارالدین خسرو سر نے کلاس کے حالیہ پری بورڈ ایگزام میں پوزیشن ہولڈر طلباء و طالبات کو انعام کے طور پر کتابوں کا تخفہ دیا۔ اور میرے حصے میں جو کتاب آئی اس کے اوپر لکھا ہوا تھا ” اے میرے اسامہ ” اسامہ شہید کے بارے میں اتنا جانتی تھی کہ وہ چترال کے سابق ڈپٹی کمشنر اور عظیم اخلاق کے مالک انسان تھے۔ کہتے ہیں کہ انسان خود عظیم نہیں ہوتا بلکہ اس کا اخلاق اور کردار اسے عظیم بنا دیتا ہے۔ اسامہ شہید بھی فرض شناس افیسر کے ساتھ ایک بہترین انسان بھی تھے۔ اس کے ساتھ بیتے ہوے لمحوں کو اہالیان چترال تین سال گزرنے کے باوجود آج بھی یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنی قابلیت اور ذہانت کے ذریعے چترال کے لیے بیشمار خدمات انجام دی بلکہ اپنی عظیم اخلاق کے ذریعے اہالیان چترال کو بھی اپنا گرویدہ بنایا۔ زیر مطالعہ کتاب کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ اسامہ شہید ڈپٹی کمشنر بعد میں تھے پہلے وہ ایک فرمانبردار فرزند تھے۔ ان کی پیدائش سے شہادت تک ان کے ساتھ بیتے ہوے لمحوں کو ان کی والدہ محترمہ (جبین چیمہ) نے کتابی صورت میں محفوظ کرکے ” اے میرے اسامہ ” کا نام دیا ہے۔ اس کتاب کے ہر صفحے سے مامتا کی خوشبو چھلکتی ہے اور ماں کی سسکیاں ٹپکتی ہیں۔
اسامہ شہید جو ماں کے کلیجے کا ٹکڑا تھا ہمیشہ یہی کہتا تھا کہ میری ماں دنیا کا ہرکام کرسکتی ہے۔ مگر بیٹے کے جانے کے بعد ماں کی ہمتیں جواب دینے لگی ہیں اور غم سے نڈھال ہوچکی ہے۔ ماں شب و روز بیٹے کے بیتے ہوے لمحوں کو یاد کرکے روتی رہی بلاآخر لرزتے ہاتھوں سے قلم اٹھایا تاکہ دنیا کو بتاسکے کہ اسامہ کیسا تھا؟
ان کا بیٹا تھا ہی فرمانبردار، نڈر رونقِ بزم، سراپا رحم دل محبت کا حصار مونس و غمخوار ۔
کہتے ہیں کہ چار خوبیاں انسان کو باکمال بنا دیتی ہیں ٹھنڈا دماغ ، نرم دل ، میٹھی زبان اور خوش اخلاقی ان چاروں خوبیوں کا حسین مرقع اسامہ شہید ہی تھا۔
ایک ماں کیلیے اس کا بیٹا انمول ہی ہوتا ہے ۔مگر اسامہ شہید پورے چترال کیلیے انمول تھا۔
ان کی امی محترمہ جبین چیمہ کے مطابق وہ بچپن سے ہی مساوات کا علمبردار تھے۔ ایک مرتبہ سکول انٹری ٹیسٹ میں وہ بھی شریک تھے۔ ٹیسٹ کی نگرانی پر مامور اسامہ کے والد کے ایک شاگرد نے اس کی مدد کرنے کی کوشش کی مگر اسامہ نے یہ کہتے ہوے مسترد کیا کہ اگر بتانا ہی ہے تو سب کو بتاو ورنہ نہیں۔ پھر ایک سوال کا جواب نگران نے اسے بتایا مگر وہ جواب پہلے سے اسے معلوم تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے سوال کا جواب نہیں لکھا۔
مساوات کے علاوہ بھی وہ اصولوں کے پکے تھے۔ دوران سروس کئی مرتبہ انھیں رشوت کی آفر آئی مگر وہ رشوت تو دور آشنا نا آشنا سے تخفے بھی وصول نہیں کرتے تھے۔
اسامہ شہید کی والدہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لکھاری عورت ہے انہوں نے اپنی جذبات اور احساسات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کے بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی، مگر درجنوں مائیں ایسی بھی ہیں جنھیں اس حادثے نے اندر سے مفلوج کیا ہے وہ اپنے دکھوں کا اظہار بھی نہیں کرسکتیں۔ میری دعاء ہے اللہ تعالیٰ کسی بھی ماں کے گلشن کو یوں نہ اجاڑ دے۔ اسامہ شہید کی والدہ سمیت تمام ماؤں کو صبر کی توفیق دیں اور سانحے کے تمام شہداء کو جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائیں۔ آمین

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email