خود اعتمادی

اسے یوں لگا جیسے اچانک پوری زمین گھومنے لگی ہو۔ اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ سائیکل لہرانے لگا اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وہ سائیکل سمیت دھڑام سے زمین پر آ گرا۔ کچی زمین تھی اس لیے سوائے کپڑے خراب ہونے کے اسے کچھ زیادہ چوٹ نہیں آئی۔
"کک۔۔۔کیا میں کبھی بھی سائیکل چلانا نہیں سیکھ پائوں گا۔” اس نے خود سے سوال کیا۔
اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کبھی بھی سائیکل چلانا نہیں سیکھ پائے گا۔

"میں دانیال کو سائیکل واپس کر دیتا ہوں۔” اس نے بے بسی سے سوچا اور سائیکل کا ہینڈل تھامے دانیال کے گھر کی طرف چل دیا۔
"ہاں بھئی! سائیکل چلانا سیکھ لیا ہے یا نہیں؟ "دانیال نے دانش سے سائیکل لیتے ہوئے پوچھا.
” ن ن نن… نہیں…..” دانش نے مختصر جواب دیا.
” کمال ہے… سات دنوں میں سائیکل چلانا نہیں سیکھ سکے.. ”
دانیال نے دانش کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تعجب کا اظہار کیا. دانش ناکامی اور شرمندگی کے احساس میں ڈوبا ہوا لگ رہا تھا. اس لیے وہ دانیال سے آنکھ نہیں ملا رہا تھا.
"میں اب سائیکل چلانا نہیں سیکھنا چاہتا۔” دانش نے فیصلہ کُن لہجے میں دانیال کو کہا۔
دانیال دیکھ چکا تھا کہ دانش کے کپڑے مٹی میں اٹے ہوئے ہیں۔ اس کے ہاتھ اور چہرے پر بھی کچھ خراشیں نظر آ رہی تھیں۔ اس کے بال بھی مٹی سے بھرے ہوئے تھے۔
دانش کئی دنوں سے کوشش کر رہا تھا کہ وہ کسی طرح سائیکل چلانی سیکھ لے. عالمی وبا کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر چوں کہ اسکول بند تھے اس لیے اس کا زیادہ تر وقت گھر میں ہی گزر رہا تھا. وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا. اس نے اپنے وقت کو بہترین کاموں میں استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر لی تھی. نماز فجر کے بعد وہ قرآن پاک کا کچھ حصہ ترجمے کے ساتھ پڑھتا اور پھر واک اور ورزش کے لیے اپنے سیکٹر جی سکس فور کے پارک میں چلا جاتا. واک کے بعد وہ ناشتہ کر کے پڑھنے بیٹھ جاتا تھا.
دانش کو سکول سے ملنے والا ہوم ورک کرنے میں تین گھنٹے لگ جاتے، وہ ہوم ورک کے بعد مختلف مضامین میں سے کچھ چیپٹر یاد بھی کرتا . سردیوں کے دن تھے. ماہِ دسمبر میں دن گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا. وہ لنچ کے بعد خطاطی سیکھنے چلا جاتا. ایک گھنٹے کی کلاس کے بعد وہ گھر آ جاتا تھا. اس نے سوچا کہ ان چھٹیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں سائیکل چلانا بھی سیکھ لینا چاہیے. چند دنوں سے سائیکل چلانا اس کا شوق بن گیا تھا. وہ چاہتا تھا کہ کووڈ 19 کی تعطیلات میں ہی وہ اس شوق کو پایہ تکمیل تک پہنچا لے. اس نے اپنے ایک دوست دانیال سے کہا:
” مجھے سائیکل چلاناسکھا دو.”
” سائیکل چلانا کون سا مشکل کام ہے. بڑا آسان ہے. میں تو ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلا سکتا ہوں. بلکہ سائیکل کی ون ویلنگ بھی کر لیتاہوں”. دانیال نے جواب میں کہا۔
"مم…مم…مگر مجھے سائیکل چلانا بالکل بھی نہیں آتا۔ اگر تم کچھ مدد کر دو تو مہربانی ہو گی۔” دانش نے اپنا مدعا بیان کیا۔
"میرے نزدیک بہتر تو یہ ہو گا کہ تم خود سے ہی سائیکل چلانے کی پریکٹس کرو. دو تین دن میں سیکھ لو گے. بلکہ ایسا کرو میرا سائیکل لے جائو اور جی بھر کر سیکھو اور چلائو۔ ایک ہفتے بعد واپس کر دینا۔”
"مم…مم…مگر…”
"اگر مگر کچھ نہیں۔سائیکل چلاتے ہوئے دو باتوں کا خیال رکھنا کہ نظروں کو سامنے رکھنا اور جب سائیکل کو روکنا ہو تو پھر پیڈل نہیں چلاتے… بلکہ پہلے پیڈل روکتے اور پھر بریک لگاتے ہیں۔”
دانیال نے اسے تفصیل سے اگلی اور پچھلی بریکوں کے بارے میں بھی سمجھا دیا تھا.
دانیال نے اپنی سائیکل ایک ہفتے کے لیے دانش کو دے دی. دانش کا معمول بن گیا تھا کہ وہ روز شام سے پہلے سائیکل لے کر گھر سے نکل پڑتا…… لیکن ایک ہفتے کی کوشش کے باوجود وہ سائیکل نہ چلا سکا تھا. اسے گرنے اور چوٹ لگنے کا خوف سائیکل پر سوار نہ ہونے دے رہا تھا. جلدی ہی اس کی پیشانی پر پسینہ سج جاتا .. وہ خوف میں مبتلا ہو جاتا. وہ سات دن میں ایک دفعہ بھی سائیکل کی گدی پر نہ بیٹھ سکا تھا. جونہی وہ سائیکل پر بیٹھنے اور چلانے کا سوچتا، اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا. دل کی دھک دھک اسے دماغ میں محسوس ہوتی. اسے خیال آتا کہ اگر گر گیا تو ٹانگ ٹوٹ سکتی ہے. کسی چیز سے ٹکر ہو گئی تو جان بھی جا سکتی ہے. وہ ڈر سے پریشان ہو جاتا. وہ ایکسیڈنٹ کے ڈر سے سائیکل پر سوار بھی نہ ہو پاتا اور آج ہمت باندھ کر وہ سائیکل پر سوار ہوا بھی تو دھڑام سے زمین پر آ گرا۔
"اچھا تو یہ بات ہے۔” دانیال نے گہری نگاہوں سے دانش کی طرف دیکھا:
"آو میرے ساتھ۔” اس نے سائیکل دانش کی طرف بڑھائی۔
وہ دونوں جلد ہی ساتھ بنے ایک گرائونڈ میں پہنچے۔
"چلو بیٹھو سائیکل پر۔” دانش نے دانیال کو حکم صادر کیا۔
"نن… نن… نہیں۔ میں سائیکل نہیں چلا سکتا۔” دانیال گھبرا گیا۔
"گھبرائو مت میرے دوست۔ میں سائیکل کو پکڑ کر رکھوں گا۔ تمہیں نیچے نہیں گرنے دوں گا۔” دانش نے اسے تسلی دی۔

دانش نے سائیکل کوکیرئیر سے تھام لیا اور دانیال کو سائیکل پر بٹھا کر ہدایت دینے لگا۔ دانیال کے ہاتھ ہینڈل پر کانپ رہے تھے اور وہ سامنے کی طرف دیکھنے کی بجائے سائیکل کے ہینڈل کی طرف اور بار بار پیڈلوں کی طرف دیکھتا تھا۔ اسی طریقے سے اس نے گرائونڈ میں دو چکر کاٹے۔دانیال اسے گرنے سے بچا رہا تھا۔ تیسرے چکر کے دوران دانیال نے غیر محسوس انداز سے کیرئیر سے ہاتھ اُٹھا لیے مگر دوڑتا اسی طرح ساتھ ہی رہا۔ وہ ہوشیار تھا کہ اگر کسی بھی وقت سائیکل کا توازن بگڑنے لگے تو وہ فوراً ہی سائیکل کو تھام لے مگر ایسا نہیں ہوا۔ دانش نے سمجھا کہ دانیال نے کیرئیر کو تھاما ہوا ہے اس لیے وہ اعتماد سے سائیکل چلاتا رہا اور نہیں گرا۔ چوتھے چکر میں جب وہ آدھے سے زیادہ گرائونڈ پار کر چکا تھا تب اسے احساس ہوا کہ اس مرتبہ دانیال اس کے ساتھ نہیں دوڑ رہا۔ وہ مارے خوف کے کانپا مگر جلد ہی سنبھل گیا اور پھر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ بغیر گرے وہ چکر پار کر چکا تھا۔
"شاباش میرے دوست!پہلا قدم اٹھانا مشکل ہوتا ہے. پہلی پرواز سے ہر جان دار کو ڈر محسوس ہوتا ہے. لیکن یہ دل اور دماغ میں پہلے سے موجود خوف ہوتا ہے جو قدم اٹھانے سے ڈراتا ہے. خطرات لاحق ہونے کے اندیشے اور واہمے پیدا کرتا ہے. تم ان لمحات میں چڑیا کے بچے کو ذہن میں رکھو جو ننھی جان ہوتے ہوئے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے پہلی بار اپنے گھونسلے سے اڑان بھرتا ہے. وہ ایک دم بڑی پرواز نہیں کرتا، رفتہ رفتہ آگے بڑھتا ہے. وہ پہلا قدم مکمل خود اعتمادی سے اٹھاتا ہے. اس کی ماں پہلی پرواز کے لیے اسے ذہنی طور پر تیار کرتی ہے. لیکن تم تو چڑیا سے کئی ہزار گنا بڑے ہو. دیکھو! تم نے کر دکھایا نا. تم حوصلے اور ہمت سے سائیکل پر سوار ہو کر پیڈل پر اپنے مضبوط قدم رکھو. گھوڑے کی سواری ہو یا کار اور جہاز کو چلانا… یہ سب اعتماد کا کھیل ہے. کوئی بھی نیا کام شروع میں مشکل لگتا ہے. لیکن نا ممکن نہیں ہوتا… اب کچھ چکر گرائونڈ کے مزید لگائو۔ تم سب کچھ کر سکتے ہو۔ بلکہ ہم سب ،سب کچھ کر سکتے ہیں۔ کامیابی ہمارے اندر ہی چھپی ہوتی ہے مگر صرف اعتماد کی کمی ہمیں کامیابی سے ناکامی کی طرف لے جاتی ہے۔”

دانش نے اللہ کا نام لے کر بغیر کسی سہارے کے پیڈلوں پر قدم جمائے. نظر سامنے رکھی. ہینڈل کو پکڑ کر زور سے پیڈل گھمائے. اس کو ایسے لگا کہ جیسے وہ ہوا میں چڑیا کے بچے کی طرح نہیں بلکہ شاہین کی طرح اڑ رہا ہے. وہ آگے چوک تک سیدھا گیا اور پھر موڑ کاٹ کر واپس آیا.. اس کی پر عزم واپسی پر دانیال نے زوردار تالیاں بجا کر اس کا شان دار انداز میں استقبال کیا. دانش سائیکل سے اتر کر دانیال کے گلے لگ گیا. اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے. دانیال نے اسے سائیکل پر پھر سے سوار کیا اور کہا کہ جس کام کے کرنے سے خوف لگے. اسے بار بار کرنے سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے. اس لیے تم ابھی آدھا گھنٹہ مزید سائیکل پر سوار ہو کر اسے احتیاط سے ہلکی ہلکی رفتار سے چلاتے رہو. ذہن میں رہے کہ تیز رفتاری ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے.
دانش نے اگلے آدھے گھنٹے میں جی بھر کے سائیکل چلائی. اس کی خود اعتمادی دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ کوئی ایکسپرٹ سائیکل سوار ہو.
واقعی ! کامیابی تو ہمارے اندر ہی چھپی ہوتی ہے اور اگر کسی مخلص دوست کا ساتھ میسر آ جائے تو منزل بہت جلد مل جاتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email