آوی سنوغر روڈ

خوشوختے خاندن کے مشہور و معروف مہتر گوہر آمان جن کے نام سے سکھ مہاراجہ لرزتے تھے  اور جنہوں نے سکھوں کو کبھی بھی گلگت  پونیال کی طرف  نظر اٹھا کر دیکھنے بھی نہیں دیا  اور بونجی گلگت سے چقانسرائے افغانستان تک بہت لمبے عرصے تک حکومت کی تھی ۔ اپنی اولاد کو نصیحت کرکے یوں کہا تھا  کہ کوراغ ریشت سے "تاؤ و ترانگ ” یعنی نصر گول تک ان لوگوں پر حکمرانی کرنا سب سے مشکل کام ہے ۔

یہ لوگ جس کو چاہتے ہیں تحت پر بیٹھاتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں تحت سے اتار دیتے ہیں ۔مگرافسوس کی بات یہ ہے  کہ موجودہ زمانے میں  اس احاطے میں زندگی بسر کرنے والوں  لوگوں کی کارکردگی   کسی بھی حوالے سے نہ ہونے کے برابر ہیں ۔

آج کے زمانے میں ان کی سیاست  و سیادت اپنی موت آپ مر چکی ہے ۔اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان عظیم   بادشاہ گر لوگو ں کی اولاد اس خطے میں موجود ہونے کے باوجود  اس بستی کےباسیوں  کی آمدو رفت کے لیے ریاست کے دور کی پکڈنڈی نما سڑک کو معمولی چوڑا بھی نہیں کیا  گیا  ۔

ان بستیوں میں  جو خطر ناک نالے میں  ان پر ابھی تک ایک  پل بھی نہیں بنایا جاسکا ۔

قیام پاکستان سے لے کر  آج تک ہر قسم کی حکومتیں چاہے وہ عوامی ہو ں یا فوجی  بیساکیوں کے سہارے چلنے والی ان  سب کے سامنے یہ فریاد لے کر گئے 

لیکن سب   نے بونی شندور  روڈ کے اس طرح آنے  کے انتظار کی خوشخبر ی  ہی سنائی ۔لیکن ان تمام کے وہ وعدے  بس وعدے ہی رہے انہی حالات سے دوچار ہو ر غالب نے کہا ہوگا

تیرے وعدے بھی جیے جاتے تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جات اگر اعتبار ہوتا

اورتو اور فوزیہ کائے نے نو کروڑ روپے کے فنڈ کی نو ید بھی سنائی تھی ۔ اس کا بھی کچھ پتہ نہیں ہو ا۔صد حیف ہے اس علاقے کے باسیوں پر جو مختلف پارٹیوں کو بار ہا آزمانے کے باوجود  پھر بھی ان کے بینر اور جھنڈے اٹھائے پھیرتے ہیں ۔

Print Friendly, PDF & Email