Irfan Aziz

تعلیم بکاؤ مال

گردش زمانہ نے جہاں جملہ معاملات زیست کو اپنی منحوس رنگ میں رنگا کر ان کا ستیا ناس کرکے رکھ دیاہے وہاں تعلیم جیسے مقدس فریضے کو مادہ پرستی کا شکار بنا کر رکھ دیا ہے۔بزرگوں سے سنا ہے کہ ماضی کے سنہرے ادوار میں تعلیم اور تعلم کا سلسلہ مشنری جذبہ کے ساتھ سر انجام دیا جاتا تھا۔ اور ہمارے اسلاف اس نور کے پھیلانے کو اپنی سعادت مندی سمجھتے تھے۔ علم کے متلاشی ان پاک باز اور بے غرض ہستیوں کے سامنے دوزانو ہو کر علم کے موتی سمیٹ لیا کرتے تھے۔ تب کا معاملہ تھا۔

تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجئے

مگر افسوس کہ موجودہ دور میں معلم اور متعلم دونوں عجیب صورتحال سے دوچار ہیں۔ ایک طرف بہترین تعلیمی ادارے اور قابل ترین اساتذہ کی زیر نگرانی جدید سہولیات پر مشتمل تعلیم کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف تعطیلات کے دن قریب آتے ہی ٹیوشن کے اشتہارات ہر جگہ لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی تعلیم بیچنے کا بازار گرم ہوتا ہے۔ ہر بستی ، ہر گاؤں اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں یہ قبیح دکانداری چمکنے لگتی ہے، علم جیسے نور کی قیمت لگتی ہے اور بولی کے ذریعے متلاشیان علم کو اپنی دکان کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب کی صورت حال ہے۔

بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ "بل پیش کیجئے!”

ایسا لگتا ہے کہ طلبہ نے سکول اور کالج میں کچھ پڑھنے کی تکلیف اٹھائی ہے نہ اساتذہ نے کچھ پڑھانے کی زخمت کی ہے۔ یہ امر باعث حیرت بھی ہے قابل مذمت بھی اور لائق ملامت بھی ،کہ سرکاری اور پرائیوٹ اداروں سے بھاری تنخواہیں اور دیگر بے شمار مراعات سمیٹنے والے اساتذہ سال بھر میں اس "کورس” کی تکمیل نہیں کرپاتے ، جو ٹیوشن کے ذریعے، دو ماہ میں پورے کرلیتے ہیں۔ طلبہ کی طرف سے تعلیمی اداروں میں پورا سال بھاری فیس بھرتے رہنے اور دیگر اخرجات برداشت کرنے کے ساتھ پھر ٹیوشن کلاسز میں ہزاروں کا خرچ اٹھانا غریب والدین پر ستم بلائے ستم کے مترادف ہے۔ یہ امر قابل تشویش بھی ہے اور قابل تفتیش بھی۔

ٹیوشن کی لعنت نہ صرف کالجوں اور سکولوں میں اساتذہ کو اپنے فرض منصبی پورا کرنے سے روکتی ہے بلکہ بچوں کے اذہان میں زیادہ نمبر حاصل کرنے کو تعلیم کا مقصدِ وحید ٹھہرا کر انھیں نفسیاتی مریض بنادینے کے موجب بھی بنتی ہے۔اسی پیچ وتاب میں رہتے ہوئے نتائج خلاف توقع آنے کی صورت میں طلبہ و طالبات خود کشی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ان تمام خرابیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہ صرف ادارے کے سربراہاں اور والدین کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ اساتذہ کے ذریعے سکولوں اور کالجوں ہی میں نصاب کی تکمیل کو ممکن بنانے کی کوشش کریں بلکہ محکمہ تعلیم اور مقتدر حلقوں کو بھی اس بات کا سخت نوٹس لینا چاہیئے۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email